Wednesday 24 June 2020

Janat Ke Patte urdu Noval Part 2


جنت کے پتےتحریر
نمرہ احمد
قسط
2
ابا نکل تو نہیں گئے؟وہ پرفیوم کی بوتل بند کرتی، مخصوص ہارن اور گیٹ کھولنے کی آواز پر موبائل اور پرس اٹھا کر باہر کو بھاگی۔ مقررہ وقت ہونے کو تھا، آج داور بھائی کی بارات تھی۔پورچ خالی تھا۔ تایا فرقان کی بارات تھی۔پورچ خالی تھاز آ رہی تھی۔ اب کیا کرے؟ اب کیا کرے؟
ابا کو فون کرے یا تایا فرقان کے گھر جا کر کسی سے لفٹ مانگے؟وہ سوچ ہی رہہی تھی کہ گیٹ پر ہارن ہوا۔سیاہ چمکتی اکارڈ کھڑی تھی۔ وہ ولید لغاری تھا۔ ساتھ فرنٹ سیٹ پر اس کے والد تھے اور پیچھے والدہ۔ السلام علیکم حیا! وہ درواز کھول کر باہر نکلا۔وہ ان کے سامنے کھڑی تھی۔ گہرے سرخ کامدار بغیر آستینوں والا فراک جو پاؤں تک آتا تھا اور نیچے ہم رنگ تنگ پاجامہ۔ گدلڈن ڈوپٹہ گردن میں تھا۔ہمیں میرج ہال کا علم نہیں ہے، انکل ہے؟ وہ اسے نظرانداز کرتی لغاری صاحب کے دروازے کے پاس رکی۔ انکل پیراڈائز ہال جانا ہے اور ابا شاید نکل گئے۔ مجھے پتا ہی نہیں چلا۔اوہ تو آپ کے چچا وغیرہ؟وہ تو ابا سے بھی پہلے چلے گئے تھے۔ ٹھہریں! ابا زیادہ دور نہیں گئے ہو گے میں انہیں واپس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ارے وہ کیوں واپس آئیں؟ آپ ہمارے ساتھ آ جاؤ بیٹا! ہاں بیٹا آؤ! مسز منہاز لغاری نے فوراً دروازہ کھولا۔اب اگر ابا کا انتظار کرتی تو آدھا فنکشن نکل جاتا۔چلیں ٹھیک ہے۔ وہ گاڑی میں بیٹھ گئی۔تو ہماری بیٹی کیا کرتی ہے؟ راستے میں لغاری صاحب نے پوچھا۔(میں ان کی بیٹی کب سے ہو گئی?)جی میں شریعہ اینڈ لاء میں ایل ایل بی آنرز کر رہی ہوں۔یعنی کہ آپ اسلامی وکیل ہو؟جی! وہ پھیکا سا مسکرائی۔یہ لوگ اتنی اپنائیت کیوں دے رہے تھے اسے؟حیا بیٹاآپ کا شادی کے بعد پریکٹس کا ارادہ ہے؟ کیوں کے میں اور آپ کے انکل تو کبھی اس معاملے میں زبردتی کے قائل نہیں ہیں۔ خود ولید کو بھی شادی کے بعد بیوی کے جاب کرنے پر کوئ اعتراض نهیں ہے۔مہناز کہہ رہی تھی اور وہ ہکا بکا ان کو دیکھ رہی تھی۔ کیا معاملات اتنے آگے بڑھچ کے ہیں یا وہ اس خوش فہمی کا شکار ہیں کہ ابا ان کو کبھی انکار نہیں کرے گے۔وہ اس وقت پر سکون ہوئی جب میرج ہال کی بتیاں نظر آنے لگیں۔”لفٹ کا شکریہ انکل“۔ وہ انکل اور آنٹی کے ساتھ ہی باہر نکلی تھی۔ اسی پلانک کا موبائل بجا تو معزرت کر کے ایک طرف چلے گئے منہاز بی انبکے پیچھے گئیں۔حیا سنئیے! وہ جانے لگی تھی کہ ولید نے پکارا۔ مجھے آپ سے بات کرنی ہےمگر یہ مناسب نہیں ہےمگر مجھے اسی رشتے کے متعلق بات کرنی ہے۔ اگر آپ دو منٹ اندر بیٹھ کر بات سن لے تو۔ ساتھ ہی اس نے فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھولا۔موقعہ اچھا تھا۔ وہ اس کو اپنے نکاح کے بارےمیں بتا کر سارا معاملہ یہی دبا سکتی تھی۔ٹھیکہے لیکن یہاں ہمارے رشتہ دار ہیں اگر۔۔۔۔۔۔۔۔ڈونٹ وری میں کار کو بیک سائڈ پر لے جاؤں گا آپ بیٹھیے۔وہ بیٹھی تو ولید زن سے گاڑی آگے بڑھا لے گیا۔آپکو جو بھی کہنا ہے جلدی کہیے۔ پھر مجھے بھی آپکو کچھ کہنا ہے۔پہلے آپ کہیے۔ولید میرج ہال کی پچھلی طرف سنسان گلی میں گاڑی لے آیا تھا۔اوکے۔۔۔۔۔۔ مجھے کچھ بتانا تھا۔ میرے ابا نے معلوم نہیں آپ کو بتایا ہے یا نہیں مگر میں بتا نا ضروری سمجھتی ہوں۔ میرا نکاح میری پھوپھیکے بیٹے سے بچپن میں ہی ہو گیا تھا۔ وہ لوگ ترکی میں ہوتے ہیں۔ کچھ خاندانی مسائل کی وجہ سے میرے ابا ان سے تھوڑا بدظن ہے۔ اور مجھے ڈائیورس دلا کر میری شادی کہیں اور کرانا چاہتے ہیں مگر میں ایسا نہیں چاہتی۔پلیز آپ انکار کر دے میں کسی اور کی بیوی ہوں نکاح پر نکاح نہیں ہو سکتا ۔ پلیز میں آپ سے درخواست کرتی ہوں۔اس نے چہرہ اوپر اٹھایا۔ وہ یک ٹک گہری کاموشنگاہوں سے اسے دیکھ رہا تھا۔ یہ اس کا چہرہ ت نہ تھا جو وہ سارا راستہ ڈرائیونگ کے دوران دیکھتی آئ تھی۔ یہ تو کوئی اور ہی شخص تھا۔پھر۔۔۔۔۔۔ پھر آپ نے کیا سوچا؟ اس کی آواز لڑکھڑا گئی۔ خطرے کا الارم زور زور سے اس کے اندر بجنے لگا۔کس بارے میں؟ وہ بوجھل آواز میں بولا۔ اس کا ہاتھ ہینڈل پر رینگ گیا۔آپ کے اس رشتے سے انکار کے بازے میں۔عمر پڑی ہے یہ باتیں کنے کے لیے حیا! ابھی تو ان لمحوں کا فائدہ اٹھاؤ جو میسر ہے۔ وہ ایک دم اس پر جھکا۔ حیا کے لبوں سے چیخ نکلی۔ دولید نے دونوں ہاتھ اس کی گردن پر رکھنے چاہیے۔ مگر اس نے زور سے ہینڈل گھما کر دروازہ کھولا اور دوسرے ہاتھ سے ولید کو دھکادے کر باہر نکلی۔ اس کا ڈوپٹہ ولید کے ہاتھ میں آ گیا تھا۔ وہ بنا پیچھے مڑ کردیکھے بھاگی جا رہی تھی۔گلیاں سنسن تھی ۔ جانے وہ کہاں لے آیا تھا۔وہ بھاگتے ہوئے گلی کے دوسرے سرے پر پہنچی ، مگر یہ کیا؟ گلی آگے سے بند تھی۔ ڈیڈ اینڈ۔۔۔۔۔کیوں بھاگتی ہو ؟ مسرور سے انداز میں پیچھے سے کسی نے کہا تو وہ گبھرا کر پلٹی۔ ولید سامنے سے قدم قدم چلتا آ رہا تھا۔ اس کے لبوں پر فاتحانہ مسکراہٹ تھی۔ وہ نڈھال سی دیوار سے لگ گئ. اس کا ڈوپٹہ تو وہی رہ گیا تھا۔ اب بغیر آستینوں کے جھلکتے بازو اور گلے کا گہرا کاٹ۔ اس نے بے اختیار سینے پر بازو لپیٹے۔”مجھے جانے دو!“ اس کی آواز گھبرا گئی۔کیسے جانے دوں، پھر تم نے ہاتھ تھوڑے ہی آنا ہے۔؟ وہ چلتے چلتے اس سے چند قدم کے فاصلے پر آ کر کھڑا ہو گیا۔”پلیز میں ایسی لڑکی نہیں ہوں“ ”تو کیسی لڑکی ہو؟“ مجھ سے لفٹ لے لی مگر شادی سے انکار ہے؟ تب ہی گاڑی میں اتنی بے رخی دکھا رہی تھیں؟ وہ اس کے بالکل سامنے آ رکاپلیز۔۔۔۔۔۔۔۔ اس میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ اب ولید کو دھکا دیتی۔شش!وہ مسکراتے ہوئےآگےبڑھا۔ حیا نے سختی سے آنکھیں میچ لیں۔تب ہی اس نے زور سے کسی ضرب لگنے کی آواز سنی اور پھر ولید کی کراہ۔ اس نے دھیرے سے آنکھیں کھولیں۔ ولید چکرا کر نیچے گر رہا تھا اور اس کے پیچھے کوئی کھڑا نظر آ رہا تھا۔ شوخ نارنجی شلوار قمیض میں ملبوس، میک اپ سے اٹا چہرہ لیے، وہی اس روز والا خواجہ سرا ڈولی۔ اس کے ہاتھ میں ایک فرائنگ پین تھا جو اس نے شاید ولید کے سر پر مارا تھا۔ وہ ساکت کھڑی اس کو دیکھ رہی تھی۔وہ دو قدم آگے بڑھا اور عین حیا کے سامنے رکا۔ اس کی آنکھوں میں ایسی کاٹ تھی کہ وہ سانس روکے اسے دیکھے گئی۔تب ہی اس نے ہاتھ بڑھایا اور حیا کو گردن کے پیچھے سے دبوچا لیکن اس کے منہ سے کراہ تک نہ نکلی۔اس کی گردن کو یونہی پیچھے سے دبوچے ڈولی نےایک جھٹکے سے اسے آگے دھکیلا۔گلی کے آغاز تک جہاں سے وہ آئی تھی، وہ اسے لے گیا، پھر مخالف سمت مڑ گیا۔ سامنے ہی میرج ہال کا پچھلا حصہ تھا۔وہ اسے گیٹ تک لے آیا اور ایک جھٹکے سے اسے چھوڑا۔ اس نے ڈبڈبائی آنکھوں سے ڈولی کو دیکھا۔وہ ابھی تک لب بھینچے، تلخ کاٹ دار آنکھوں سے اسے دیکھ رہا تھا۔دفعتاً ڈولی نے اپنی گردن سے لپٹا نارنجی دوپٹہ کھینچا اور اس پر اچھالا۔۔۔۔۔ ڈوپٹہ اس کے سر پر آن ٹھہرا۔ ڈولی چبھتی ہوئی نطروں سے اسے دیکھتا ہوا بولا ۔”بے حیا“پھر وہ پلٹ گیا۔ نارنجی ڈوپٹہ اس کے کندھوں سے پھسل کر قدموں میں آ گرا تو وہ چونکی، پھر جھک کر ڈوپٹہ اٹھایا۔ ۔اس نےاچھے طریقے سے خود کو اس میں لپیٹا، تا کہ پہچانی نہ جائے اور پچھلےگیٹ کی طرف بڑھ گئی۔ہال میں جانے کی بجائے وہ باتھ رومز کی طرف آئی اور اپنا حلیہ درست کیا۔اندر فنکشن عروج پر تھا۔وہ ایسی حالت میں نہ تھی کہ دو قدم بھی چل پاتی سو بی دم سی آخری نشست پر گری ہوئی تھی۔”بے حیا“”بے حیا“”بے حیا“ڈولی کے لفظ ہتھوروں کی طرح اس کے دماغ پر برس رہے تھے۔ وہ بے حیا تو نہیں تھی۔ وہ تو کبھی کسی لڑکے کی گاڑی میں نہیں بیٹھی تھی۔ اس سے تو یہ غلطی پہلی بار ہوئی تھی، پھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟ سوچ سوچ کر دماغ پھٹا جا رہا تھا۔وہ آدھے فنکشن کے بعد ہی طبیعب خرابی کا بہانہ کر کے چلی آئی تھی۔****************یہ داور اور سونیا کی شادی کے چند دن بعد کا ذکر ہے۔صبح سے سردی بہت بڑھ گئی تھی۔ دسمبر ختم ہونے کو تھا۔ ایسے میں وہ کیمپس میں اسکالر شپ کوآرڈینیٹر کے آفس کے باہر لگی لسٹ کو دیکھ رہی تھی۔ ”اریسمس منڈس ایکسچینج پروگرام“ کے تحت اسٹوڈنٹس میں سے صرف دو لڑکیاں سبانجی یونیورسٹی جا رہی ھی۔حیا سلیمان اور خدیجہ رانا۔یہ خدیجہ رانا کون ہے بھلا؟ وہ سوچتے ہوئے اپنے یخ ہوتے ہاتھ آپس میں رگڑ رہی تھی۔ دفعتاً پیچھے سے کسی نے پکارا۔”ایکسکیوزی !“وہ چونک کر پلٹی۔ پیچھے ایک لڑکی کھڑی تھی۔ وہ اس کو نام سے نہیں پہچانتی تھی لیکن یونی میں کئی بار دیکھا تھا۔ وہ لڑکی اسے خوامخواہ ہی بری لگی تھی۔”یہ حیا سلیمان کون ہی بھلا؟“ وہ چشمے کے پیچھے سے آنکھیں سکیڑے سوچتی ہوئی کہہ رہی تھی۔حیا نے ایک طنزیہ نگاہ میں سر سے پاؤں تک جائزہ لیا، پھر ذرا روکھے انداز میں بولی۔ ”میں ہوں“اوہ! اس نے جیسے بمشکل اپنی ناگواری چھپائی ۔میں آپکے ساتھ ترکی جا رہی ہوں حیا! میری فرینڈز مجھے ڈی جے کہتی ہے لیکن آپ میری فرینڈ نہیں ہیں، سو خدیجہ ہی کہیے گا۔مجھے بھی حیا صرف میرے فرینڈز کہتےہیں آپ مجھے مس سلیمان کہہ سکتی ہیں۔ وہ کہہ کر پلٹ گئی۔وہ جیسے ہی گھر آئی، ظفر سامنے سے آ گیا۔ بھاگتا ہوا، ہانپتا ہوا۔حیا بی بی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حیا بی بی!” بول بھی چکو اب! وہ گاڑی لاک کرتی کوفت زدہ ہوئی۔آپکو ارم بی بی بلا رہی ہیں۔خیریت؟خیریت نہیں لگتی جی۔ وہ بہت رو رہی ہیں۔ ظفر نے رازداری سے بتایاتو وہ چونکی۔اچھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں آتی ہوں، تم یہ میرا بیگ اندر رکھ دو۔ لاؤنج میں صائمہ تائی اور سونیا بیٹھی تھی۔آہٹ پہ سر اٹھایا۔ اسے دیکھ کر دونوں ہی مسکرا دیں۔حیا کیسی ہو؟ بالکل ٹھیک۔ ارم کہاں ہے تائی اماں! مجھے بلا رہی تھی۔اندر کمرے میں ہو گی۔اوکےمیں دیکھ لیتی ہوں۔ ارم کے کمرےکا دروازہ کھولا تو ارم بیڈ پر اکڑوں بیٹھی تھی۔ سامنے لیپ ٹاپ کھلا پڑا تھا۔۔ ارم کے چہرے پر آنسو لڑیوں کی صورت بہہ رہےتھے۔ارم کیا ہوا؟ وہ قدرے فکرمندی سے ارم کے پاس آ بیٹھی۔ ارم نے سرخ متورم آنکھیں اٹھا کر حیا کودیکھا۔ اس کی آنکھوں میں کچھ تھا جو اے ٹھٹکا گیا۔حیا ایک بات بتاؤ ؟ اسکا رندھاہوا لہجہ عجیب سا تھا۔بولو!ہم شریف لڑکیاں ہے کیا؟ اپنے بارےمیں تو یقین ہے مگر تمہارا معاملہ ذرا مشکوک ہے۔ اس نے ماحول کا بوجھل پن دور کرنے کو کہا مگر ارم مسکرائی تک نہیں۔نہیں حیا ہم دونوں کا ایک ہی معاملہ ہے۔کیوں پہیلیاں بجھوا رہی ہو؟ ہوا کیا ہے؟حیا مجھے بتاؤ کیا ہم مجرا کرنے والیاں یں۔؟ وہ ایک دم رونے لگی تھی۔ارم! وہ ششدر رہ گئی۔بتاؤ, کیا ہم طوائفیں ہیں؟ وہ اور زور سے رونے لگی۔ارم! بات کیا ہوئی ہے؟حیا! بولو، بتاؤ ہم ایسی ہیں کیا؟ نہیں، بالکل نہیں!پھر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر یہ کیا ہے؟ ارم نے لیپ ٹاپ کی سکرین کا رخ اس کی طرف کیا۔کیا ہے یہ؟ اس نےالجھن سے سکرین کو دیکھا۔ اس پر ایک ویڈیو چل رہیتھی۔ ویڈیو کا کیپشن اوپر رومن اردو میں لکھا ہوا تھا۔شریفوں کا مجرا“ویڈیو کسی شادی کے فنکشن کی تھی۔ ڈانس فلور پر محو رقص دو لڑکیاں۔ایک کا لہنگا گولڈن تھا اور دوسری کا سلور۔پوری چھت جیسے اس کے سر پر آن گری۔نہیں! وہ کرنٹ کھا کر اٹھی۔ یہ کیا ہے؟یہ شریفوں کا مجرا ہے حیا اور یہہم نے کیا ہے۔ یہ داور بھائی کی شادی کی ویڈیو ہے جو کسی نے انٹر نیٹ پر ڈال دی ہے۔ یہ پڑھو، ویڈیو دالنےوالے نےاپنا ای میل ایڈریس بھی دیا ہے۔ جس پر میل کر کے پورے ڈانس کی ویڈیو بھی حاصل کی جا سکتی ہے۔ یہ دیکھو۔۔۔۔ اس ویڈیو کو تین دن سے سینکڑوں لوگ دیکھ چکے ہیں۔ حیا! ہم برباد ہو چکے ہیں۔ ہم کہیں کے نہیں رہے۔اس کے گکانوں سے دھواں نکلنے لگا۔نہیں ۔۔۔۔۔۔ یہ میں نے نہیں کیا۔ وہ یک یک دم پیچھے ہو رہی تھی۔ اس کے لب کپکپا رہے تھے۔ ارم اسی طرح بلک رہی تھی۔میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں مجرا کرنے والی نہیں ہوں میں شریفلڑکی ہوں۔یہ ہم ہی ہیں حیا! ہم بباد ہو گئے۔ابا تو مجھے گولی مار دے گے ارم!مجھے تو زندہ گاڑ دیں گےمگر یہ ویڈیو کس نے بنائ؟ ہم نےتو مووی والے کو منع کر دیا تھا۔کسی نے چھپ کر بنائی ہو گی۔کچھ کروارم ۔ اس کا سکتہ ٹوٹا وہ تیزی سے ارم کے قریب آئی۔میں نے اس ویب سائٹ پر رپورٹ تو کی ہے لیکن ویب سائٹ نے ایکشن لے کر ویڈیو ہٹا دی تو بھی یہ سی ڈی پر ہر جگہ مل رہی ہے۔ ایسی چیزیں تو منٹوں میں پھیلتی ہیں۔ ہم کہاں کہاں سے ادے ہٹوائیں گے؟خدایا یہ کیا ہو گیا؟ اگر بابا یا پھر کسی بھائی وغیرہکو معلوم ہوگیا تو۔۔۔۔۔۔۔۔ اوہ خدایا ہم کیا کریں؟سوچ سوچ کر دماغ پھٹا جا رہا تھا مگر کوئیحل نظر نہیں آ رہا تھاشام میں وہ سو رہی تھی کہ راحیل کا فون آ گیا۔ اس کے دماغ میں کطرے کا الارم بجھنے پگا تھا۔ ھہو حیا کیسیہو؟ روحیل کی آواز میں گرم جوشی تھی۔ وہ کچھ اندازہ نہ کر پائی۔ٹھیک۔۔۔۔۔۔۔۔تم۔۔۔۔۔۔۔تم ٹھیک ہو؟ایک دم فٹ۔ میں نے تمہیں مبارک با دینی تھی۔کک۔۔۔۔۔۔۔۔ کس بات کی؟ بھئی تم ایکسچینج پروگرام کے تحت ترکی جا رہی ہو اور کس بات کی بھلا؟اوہ اچھا۔ تھینک یو سو مچ۔ اس کی اٹکی ہوئی سانس بحال ہوئی۔کب تک جانا ہے۔ وہ خوشی سے پوچھ رہا تھا۔جنوری کے اینڈ تک یا فروری کے شروع تک۔و کیا تم ادھر سبین پھو پھو کی فیملی سے ملو گی؟پتا نہیں، ابھی سوچا نہیں ہے۔۔کیا بات ہے تم اپ سیٹ لگ رہی ہو؟وہ ذرا پریشان ہوا۔ارے نہیں۔۔۔۔۔۔ وہ فوراً سنبھلی اور پھر ادھر ادھر کی باتیں کر کے خود کو نارمل ظاہر کرنے میں کامیاب ہو ہی گئ۔فون بند ہوا تو وہ ارم کی طرف چلیآئی۔یوں منہ سر لپیٹ کر بیٹھنے سے کچھ نہیں ہو گا۔تو کیا کریں؟ ارم نے تکیہ پھینکا اور اٹھ بیٹھی۔سب سے پہلے تو سارے گھر کے کمپیوٹرز سے اس ویب سائٹ کو بلاک کرتے ہیں۔تا کہ کم از کم گھر والوں کو تو نہ پتہ چلے، پھر اس کا کوئی مستقل حل سوچتے ہیں۔ٹھیک ہے چلو! امید کا سرا نظر آتے ہی ارم اٹھ کھڑی ہوئی۔ بنا کسی دقت کے جب وہ تمام کمپیوٹرز پر اس ویب سائٹ کو بلاک کر چکی تو صائمہ تائی نے آ کر بتایا کہ رات میں ارم کو دیکھنے کے لیے تایا فرقان کے کوئی فیملی فرینڈ بمع خاندان آ رہے ہیں۔ رسمی کاروائ تھی کیونکیہ رشتہ تو وہ ڈھکے چھپےلفظوں میں مانگہی چکے تھے۔ حیا سب کچھ بھول کرپرجوش ہو گئی۔**********************ہمارے دولہا بھائی بھی ساتھ ہی آیے ہیں۔ حیا نے آ کر ارم کو بتایا۔تم ایسےکیوں بیٹی ہو؟ ارم نے آہستہ سے سر اٹھایا۔وہ ویڈیو؟دفع کرو اسے۔ آؤ سب بھلا رہے ہیں۔ لڑکے کو اس کی والدہ ماجدہ نے اندر بلایا ہے۔ تمہیں دکھانے کے لئے۔ آؤ۔ اس نے ہاتھ پکڑ کر اسے کھڑا کیا۔وہ ارم کو پکڑے ڈرایئنگ روم میں آ گئی۔سامنے دو سنگل صوفوں پر ایک نفیس سی خاتون اور ایک خوبرو سا نوجوان بیٹھا تھا۔******** بس بھابھی! ہمیں تو اپنے جیسی ہی بچی چاہیے۔ با حیا، با پردہ، صوم و صلاة کی پابند۔ وہ خاتون مسکرا کر کہہ رہی تھیں۔ارے مسز کریم! ہماری ارم تو کبھی سر ڈھکے بغیر گیٹ سے باہر نہیں نکلی۔السلام علیکم! وہ ارم کو ساتھ لیے اندر داخل ہوئی۔ اسکے سلام پر سب نے سر اٹھا کر دیکھا۔ارم جھکی جھکی نگاہوں کے سے سامنے ایک صوفے پر بیٹھ گئی۔ حیا بھی ساتھ ہی تھی۔بیگم کریم کی مشفق سی آنکھوں میں ارم کے لئے پسندیدگی کی جھلک اٹھی تھی۔ انہوں نے تائیدی انداز میں اپنے سمارٹ سے بیٹے کو دیکھا, مگر وہ ارم کو نہیں بلکہ بہت غور سے حیا کو دیکھ رہاتھا۔اور بیٹا آپ کیا کرتی ہیں؟ بیٹے کو متوجہ نہ پا کر وہ ارم سے مخاطب ہوئی۔جی! ماسٹرز کر رہی ہوں انگلش لٹریچر میں۔ ارم نے جھکی جھکی نظروں سے جواب دیا۔تب ہی حیا کو محسعس ہوا کہ وہ لڑکا مسلسل اسے دیکھ رہا ہے۔ بڑی جانچتی نظروں سے۔دفعتاً اس نے پاکٹ سے اپنا بلیک بیری فون نکالا اور خاموشی سے سر جھکائے بٹن پریس کرنے لگا۔خواتین آپس میں مصروف تھیں۔ مگر حیا کو کچھ عجیب سا محسوس ہو رہا تھا۔ تب ہی ہولے سے اس کے مبائل سے ” مائی نیم از شیلا“ کی آواز گونجی۔ جسے اس نے فوراً بند کر دیا۔ مگر وہ سققان چکی تھی۔ شیلا کے ساتھ شادیوں کا مخصوص شور بھی سنائی دیا تھا اور ارم نے بھی شاید کچھ سنا تھا، تب ہی چونک کر گردن اٹھائ ار پھر قدرے سبکی سے واپس جھکا دی۔حیا کو اپنے جسم سے جان نکلتی ہوئی محسوس ہوئ۔ کیا دنیا اتنی چھوٹی تھی؟وہ اب سکرین پر کچھ دیکھ رہا تھا، کبھی سکرین پر دیکھتا اور کبھی حیا اور ارم کے چہروں پر نظر ڈالتا۔ صاف ظاہر تھا کہ وہ کچھ ملانے کی سعی کر رہا تھا۔پھر ایک دم وہ اٹھا اور تیزی سے کمرے سے نکل گیا۔ ایک شرمندہ سی خاموشی نے سارےماحول کو گھیرلیا۔حیا نے سر جھکا دیا، اسے اپنا دل ڈوبتا ہوا سا محسوس ہوا تھا۔ ****************وہ بہت بے چین سی بیٹھی غائب دماغی سے ٹی وی دیکھ رہی تھی ریمورٹ ہاتھ میں پکڑا ہوا تھا۔ جہاں موبائل کمپنی کے ساتھ ” غیر تصدیق شدہ سم کا استعمال قانوناً جرم ہے۔ پی ٹی اے“ لکھا آ رہا تھا۔ جانے کب pause کا نبٹن اس سے دبا اور اشتہار وہیں رک گیا۔ وہ اتنی دور بھٹکی ہوئی تھی کہ play بھی نہ کر سکی۔دفعتاً دروازے میں فاطمہ بیگم کی شکل دکھائی دی۔ وہ تھکی تھکی سی اندرداخل ہو رہی تھیں۔ حیا ریمورٹ پھینک کر تیزی سے اٹھی۔کیا بات تھی؟ صائمہ تائی نے کیوں بلایا تھا؟ارم کے رشتے کے لیے جو لوگ اس دن آئے تھے انہوں نے انکار کر دیا ہے، حالانکہ رشتہ مانگ چکے تھے۔اور حیا کا دل بہت ڈوب کر ابھرا تھا۔کیوں؟ کیوں انکار کر دیا؟ اس کو اپنا سانس رکتا ہوا محسوس ہوا۔کوئی وجہ نہیں بتاتے۔ بس ایک دم ہی پیچھے ہٹ گئے۔ صائمہ بھابھی بھی بہت اپ سیٹ تھیں۔مگر کچھ تو کہا ہو گا؟بس یہی کہا ہے کہ ہم نے کسی آزاد خیال اوربے پردہ لڑکی کو بہو بنا کر اپنی عاقبت خراب نہیں کرنی۔وہ متحیر رہ گئی۔ چند روز قبل سنا تائی کا فقرہ سماعت میں گونجا تھا۔”جب فرقان نے سختی کی کہ بھلا ایسی بے پردہ اور آزد خیال لڑکی کو بہو بنا کر ہم نے اپنی آخرت بگاڑنی ہے کیا، تب کہیں جا کر وہ مانا“کیا اس کو مکافات عمل کہتے ہیں؟کیا دوسروں کی بیٹیوں پر انگلیاں اٹھانے والوں کےگھروں پر وہی اٹھی انگلیاں لوٹ کر آتی ہیں؟مگر وہ خوش نہیں ہو پائی۔ اگر بات کھل جاتی تو اصل بدنامی تو اسی کے حصے میں آتی۔ ارم کو تو شاید اس کی ماں ”حیا نے اسے بگاڑا ہے“ کہہ کر درمیان سے نکال لیتی اور بات تو اب بھی کھل سکتی تھی۔ وہ ویڈیو تو اب بھی انٹر نیٹ پر موجود تھی۔ ٹی وی سکرین پر اب بھی اشتہار رکا ہوا تھا۔ وہ بس خالی خالی نظروں سے اسے دیکھے گئی۔”بغیر تصدیق شدہ سم کا استعمال قانوناً جرم ہے۔ پی ٹی اے۔“”بغیر تصدیق شدہ سم کا استعمال قانوناً جرم ہے۔ پی ٹی اے“وہ بے خیالی میں تکتی، سوچوں کی الجھن سے نکل کر ایک دم چونکی۔۔”بغیر تصدیق شدہ سمبکا استعمال قانوناً جرم ہے۔ پی ٹی اے“بجلی کا ایک کوندا سا اس کےذہن میں لکا تھا۔اوہ خدایا! یہ خیال اسے پہلے کیوں نہیں آیا تھا؟وہ ایک جھٹکے سے اٹھی اور باہر کی طرف لپکی۔”ارم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ارم۔۔۔۔۔۔۔۔۔“ بہت جوش سے چلاتے ہوئے حیا نے اس کے کمرے کا دروازہ کھولا۔ارم موبائل پکڑے بیڈ پر بیٹھی تھی، دروازہ کھلنے پر گڑبڑا کر موبائل سائڈ پر رکھا۔کیا ہوا؟ ساتھ ہی ارم نے اپنا موبائل الٹا کر دیا تا کہ اسکرین چھپ جائے۔سنو وہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تب ہی رشتے والی بات یاد آئی۔ اوہ آئی ایم سوری ان لوگوں نے رشتے سے انکار کر دیا۔وہ تو ویڈیو دیکھ کر کرنا ہی تھا، خیر جانے دو اچھا ہی ہوا۔ وہ مطمئن تھی۔ارم تم ے کبھی موبائل کنکشنز کے اشتہاروں میں وہ عبارت پڑھی ہے کہ غیر تصدیق شدہ سم کا استعمال جرم ہے۔ہاں تو؟تو کیا تمہیں معلوم ہے کہ سم رجسٹر کروانا کیوں ضروری ہوتا ہے؟کیوں؟تا کہ کوئی کسی سم کا غلط استعمال نہ کر سکے، چاہے وہ دہشت گردی کی وردات ہو یا کسی کو رانگ کالز کرنا، یہ سب سائبر کرائم کے تحت آتا ہے۔سائبر کرائم؟ ارم نے پلکیں جھپکائیں۔ارم۔۔۔۔۔۔۔۔ ارم ہماری پرسنل ویڈیوانٹرنیٹ پر ڈال دینا بھی تو ایک سنگین جرم ہے، ہم اس کی رپورٹ کر سکتے ہیں۔مگر ہم کس کو رپورٹ کریں گے؟ وہ نیم رضا مند ہوئی تو حیا نےجھٹ اپنا موبائل نکالا۔پی ٹی اے کو، روازہ بند کرو، میں ہیلپ لائن سے نمبر لیتی ہوں۔پی ٹی اے کی آپریٹر نے نہایت شائستگی سے یہ کہہ کر معزرت کرلی کہ اس طرح کے کیس کی سائبر کرائم یا کسی انٹیلی جنس کے سائبر سیل کو رپورٹ کرنی ہوگی حیا نے ان سے ملک کی سب سے بڑی سرکاری، سویلین ایجنسی کے سائبر کرائم سیل کا ای میل ایڈریس تو لے لیا لیکن اب وہ متزبزب بیٹھی تھی۔یہ انٹیلی جنس والے بڑے خطرنا لوگ ہوتے ہیں ارم! مگر اب یہ کرنا تو ہے نا!ارم نے لیپ ٹاپ کھولا پھر انہوں نے ایک کمپلینٹ لکھی اور اس پتے پر بھیج دی جو پی ٹی اے سے ان کو ملا تھا۔بمشکل دس منٹ گزرے تھےکہ حیا کا موبائل بجا۔ چمکتی سکرین پر private number calling لکھا آ رہا تھا۔ یہ کون ہو سکتا ہے؟ اس نےاچنبھے سے موبائل کان سے لگایا۔ہیلو! مس حیا سلیمان؟جج۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ کون؟میں میجر احمد بات کر رہا ہوں، سائبر کرائم سی سے۔ ہمیں ابھی آپ کی کمپلینٹ موصوپ ہوئی ہے۔وہ جو کوئی بھی تھا بہت خوبصورت بولتا تھا۔ گہرا، گمبھیر لہجہ جس میں ذرا سی چاشنی بھری تپش تھی۔ گرم اور سرد کا امتزاج۔مگر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میجر احمد ۔۔۔۔۔۔۔ میں نے کمپلینٹ میں اپنا نمبر تو نہیں لکھا تھا۔ جواباً وہ دھیرے سے ہنس دیا۔نمبر تو بہت عام سی چیز ہے مس سلیمان!میں تو آپ کے بارے میں بہت کچھ جانتا ہوں۔کیا؟یہی کی آپ سلیمان اصغر کی بیٹی ہیں۔ آپ کے والد کی ایک کنسٹریکشن کمپنی ہے۔ آپ کا بھائی روحیل جارج میسن یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہے۔ خود آپ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی میں ایل ایل بی آنرز شریعہ اینڈ لاء کے پانچویں سال میں ہیں۔ فروری میں آپ ایکسچینج پروگرام کے تحت استنبول جا رہی ہیں، غالباً سبانجی یونیورسٹی میں اور پچھلے ہفتے اپنے کزن داور فرقان کی مہندی کی فنکشن پہ بننے والی ویڈیو کی انٹرنیٹ پہ اپ لوڈنگ کو آپ نے رپورٹ کیاہے۔ از دیٹ رائٹ میم؟وہ جو دمبخود سنتی جا رہی تھی، بمشکل بول پائی۔جی۔۔۔۔۔۔۔۔جی وہی ویڈیو۔اب آپ کیا چاہتی ہیں؟یہی کی آپ اسے ویب سائٹ سے ہٹادیں۔اوکے اور کچھ؟اور جن لوگوں کے پاس اس کی سی ڈی ہے وہ بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں شہر کےایک ایک بندے سے وہ ویڈیو نکلوا لوں گا آپ بے فکر رہیے۔ اور اسے لگا منوں بوجھ اس کے اوپر سے اتر گیا ہو۔تھینک یو میجر احمد۔ اس کے انداز سے لگ رہا تھا کہ وہ فون رکھنے وال ہے تو وہ بول اٹھا۔تھینک یو تو آپ تب کہیں جب میں یہ کام کردوں اور اس کام کو محض شروع کرنےکے لیے بھی مجھے آپ کا تعاون چاہیے۔کیسا تعاون؟آپ کو باقاعدہ رپورٹ کرنے کے لیے میرے آفس آنا ہو گا۔کیا؟ نہیں، نہیں میں نہیں آ سکتی۔پھر تویہ کام نہیں ہو پائے گا۔ ایسے اسٹیپ فون پر نہیں لیے جا سکتے۔ اسے لگا وہ محفوظ سا مسکرا رہا تھا۔مم۔۔۔۔۔۔ مگر میں نہہیں آسکتی۔ اور وہ کیسے آ سکتی تھی؟ اگر کسی کو پتا چل جاتا تو کتنی بدنامی ہوتی۔آپ کو آنا پڑے گا، میں گاڑی بھیج دیتا ہوں۔نہیں نہیں، اچھا خدا حافظ۔ اس نے جلدی سےفون بند کر دیا۔بھاڑ میں گیا یہ اور اس کا سائبر کرائم سیل۔ اگر ابا یا تایا ابا کو پتا چل گیا کہ ہم ایک ایجنسی کے ہیڈکواٹرز گئے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو ہماری ٹانگیں توڑ دیں گے وہ۔میں تو پہلے ہی کہہ رہیتھی کہ رپورٹ نہ کرو۔پرائیویٹ نمبر سے پھر کا آنے لگی تھی۔اس نے جھنجھلا کر فون ہیآف کر دیا۔ اس ویڈیو سے زیادہ میجر احمد نے اسے بلیک میل کیا ہے۔ یہ خیال پھر سارا دن اس کے ذہن میں گونجتا رہا۔********************وہ بہت تھکی ہوئ پاسپورٹ آفس سے نکلی تھی۔ وہ آج پاسپورٹ آفس سے اپنا پاسپورٹ اٹھانے آئی تھی مگر یہاں علم ہوا کہ پاسپورٹ چودہ فروری کو ہی مل پائے گا۔اسلام آباد میں کوئی تکنیکی مسئلہ تھا اس لیےاسے پنڈی میں ہی اپلائی کرنا پڑا تھا۔اور چودہ فروری میں ابھی ہفتہ پڑا تھا۔سگنل پر اس نےگاڑی روکی اور شیشے کھول دیے۔یکایک کوئی اس کی کھڑکھی میں جھکا۔سوہنیو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا سوچ رہے ہو؟وہ بری طرح چونکی اور سر اٹھا کر دیکھا۔وہ وہی تھا ڈولی۔ناگواری کی ایک لہر اس کے چہرے پر سمت آئی۔ اسے بھول گیا کہ کبھی دولی نے اس پر کوئی احسان کیا تھا۔ہٹو سامنے سے۔ وہ جھڑک کر بولی۔ وہ کھلی کھڑکی میں اس طرح ہاتھ جما کر کھڑا تھا کہ وہ شیشہ اونچا نہیں کر سکتی تھی۔لو باجی! میں تو سلام دعا کرنے آئی تھی اور آپ غصہ کر رہی ہو۔ اس کے چہرے پر کراہیت بڑی معصومیت تھی۔ہٹو سامنے سے ورنہ میں پولیس کو بلا لوں گی۔ہائے باجی! ڈولی سے ایسے بات کرتی ہو؟ اور آپ کی تریفیں کر کر کے ڈولی نے میرا سر کھا لیا تھا۔اس نے آواز پر سر گھما کر دیکھا تو فرنٹ سیٹ کی کھلی کھڑکی پر ایک اور خواجہ سرا کھڑا تھا۔وہ دونوں ہاتھ کھڑکی کی چوکھٹ میں دیے کھڑا تھا۔یہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کون ہو تم؟ ہٹو میری گاڑی سے۔یہ جی میری بہن ہے پنکی۔ بڑا شوق تھا جی اسے آپ سے ملنے کا۔ ایک بڑی ضروری بات کرنی تھی جی ہمیں آپ سے۔گیٹ لاسٹ۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر شیشہ اونچا کرنا چاہا مگر پنکی نے اپنا ہاتھ اندر کر دیا۔ ایک دم سے اس کی کلائی سامنے آئی تھی۔ اس کی کلائی پر ایک گلابی سرخ سا کانٹا بنا تھا۔ جیسے جلا ہو یا شاید برتھ مارک۔ہٹو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آئی سے گیٹ لاسٹ۔ وہ عالم طیش میں شیشہ اوپر کرنےلگی مگر پنکی نے اس پر اپنے ہاتھ رکھ دیے تھے۔ شیشہ اوپر نہیں ہو پا رہا تھا۔باجی! ایسے نا کرو پنکی نال۔ اس کا ہاتھ زخمی ہو جائےگا جی۔ ڈولی نے پیچھے سے کہتے ہوئے پیچھے سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ اس نے ڈولی کو دھکا دیا اور وہ لڑکھڑا کر چند قدم پیچھے ہٹا تو اس نے جلدی سے شیشہ اوپر کیا۔اب تم بھی ہٹوادھر سے۔ وہ شیشہ بند کرنے لگی لیکن وہ اڑ ہی گیا تھا۔باجی جی میں تہانوں ڈولی کے دل کی بات بتانے آئ تھی اور تساں اس طرح کر رہے ہو، یہ جو ڈولی ہے نا یہ بڑا پسند کرتی ہےآپ کو مگر اقرار نہیں کرتی۔پیچھے ڈولی شیشہ بجانے لگا تھا۔وہ پوری قوت سے شیشہ اوپر چڑھانے لگی۔ پنکی نے لمحہ بھر کو گردن موڑ کر ڈولی کو دیکھا تو اس کی گرفت ذرا ڈھیلی ہوئی حیا نے فوراً شیشہ اوپر چڑھایا۔ پنکی نے چونک کر دیکھا پھر انگلیاں کھینچنی چاہیں مگر وہ مسلسل شیشہ اوپر کر رہی تھی۔ پنکی کی انگلیاں پھنس کر رہ گئی۔اوہ چھڈو باجی جی!دفعتاً بنکی کے دائیں ہاتھ کی انگلی سے خون کی بونڈ ٹک کر شیشے پر گری تو اسے ہوش آیا ایک جھٹکے سے اس نے لیور نیچے کیا۔ پنکی نے غصے سے اسے گھورتے ہوئے ہاتھ باہر کھینچے۔وہ زن سے گاڑی آگے لے گئی، پھر اس نے بیک ویو مرر سے دیکھا۔ وہ دونوں خواجہ سرا بار بار مڑ کر اسے دیکھتے ہوئے سڑک پار کر رہے تھے۔ ڈولی نے پنکی کا زخمی ہاتھ پکڑ رکھا تھا اور غصے سے حیا کی دور جاتی گاڑی کو دیکھتے ہوئے کچھ کہہ رہا تھا۔ اس نے سر جھٹک کر ایکسیلیٹڑ پر زور بڑھا دیا۔ کم ازکم اتنی امید اسے تھی کہ اب وہ ڈولی اس کا پیچھا کرنے کی ہمت نہیں کرے گا۔بہت جلد وہ غلط ثابت ہونے والی تھی۔جاری ہے


No comments:

Post a Comment


I try to read a message of peace will be good, God willing, I will get some useful articles and poetry about qraan ahadees Also of interest to women and children will be provided