Monday 29 June 2020

جنت کے پتے قسط. 3

I try to read a message of peace will be good, God willing, I will get some useful articles and poetry about qraan ahadees Also of interest to women and children will be provided


ناول:جنت کے پتے
 تحریر
نمرہ احمد قسط:3

حیا حیا۔ وو جیسے ہی گھر میں داخل ہوئی سلیمان صاحب تیزی سے اس کی طرف اے ان کے چہرے پر غصّہ تھا تب ہی فون کی گھنٹی بجی یہ ویڈیو تمہاری ہے تم مجرا کرتی ہو روحیل جو صوفہ پر بیٹھا تھا ایک دم اٹھا اور بہت زیادہ cdz اس کی طرف پھینک دی وہاں سب موجود تھے تایا فرقان داور بھائی روحیل اور ایک طرف ارم زمین پر بیٹھی رو رہی تھی دور کہی فون کی گھنٹی بج رہی تھی نہیں نہیں وو ان کو کہنا چاہتی تھی اس کا منہ تو ہلتا تھا پر آواز نہیں نکل رہی تھی وو سب اس کا خون لینے پے تلے تھے سلیمان صاحب آگے برھے اور اس کے منہ پر تھپپر مارا بے حیا بے حیا اسے تھپڑوں سے مارتے حوے سلیمان صاحب کہ رہے تھے ان کے لب حل رہے تھے مگر ان سے آواز ڈولی کی نکل رہی تھی وو سلیمان صاحب نہیں ڈولی بول رہی تھی ڈولی ڈولی پنکی بے حیا پنکی کی انگلیاں فون کی گھنٹی وو ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھیکمرے میں اندھیرا تھا اس نے ہاتھ بڑھا کر ٹیبل لیمپ on کیا سب ٹھیک تھا کسی کو کچھ علم نہیں ہوا تھا وو سب ایک خواب تھا۔۔۔۔اہ خدایا ۔۔۔۔ اس کا سانس تیز تیز چل رہا تھا ۔۔۔دل ویسے ہی دھڑک رہا تھا۔۔۔پورا جسم پسینے سے بھیگا تھا ۔۔۔فون کو مخصوس tone اسی ترھا بج رہی تھی ہاں بس وو گھنٹی خواب نہیں تھی اس نے سائیڈ ٹیبل سے موبائل اٹھایا اور چمکتی سکرین کو دیکھا private نمبر caling.... اور پھر اس نے فون کان سے لگا لیا۔۔میجر احمد میں آپ کے آفس۔ آ کے رپورٹ درج کروانے کے لیے تیار ہوں ۔۔۔۔کل صبح نو بجے گاری بیجھ دیں اوکے اسے فاتحانہ لہجہ سنائی دیا تھا اس نے آہستہ سے فون بند کر دیا کبھی وو کسی لڑکے سے تنہا نہیں ملی تھی مگر نا ملنے کی صورت میں ویڈیو لیک ہو سکتی تھی اس خوفناک خواب نے اسے یہ سب کرنے پر مجبور کیا تھا ۔۔ اسے لگا اب اس کے پاس کوئی چارہ نہیں رہا meijor احمد سے تو وو نپٹ لے گی۔۔************پلے گراؤنڈ کے ساتھ درخت تھا ۔۔وہ اس کے پاس منتظر کھڑی تھی۔۔۔ارم یا زارا اس نے کسی کو نہیں بتایا تھا۔۔یہ خطرہ اس کو اکیلے مول لینا تھا۔۔اس نے گھڑی دیکھی نو بجنے میں ایک منٹ تھا۔اسی پل ایک کار زن سے اس ک سامنے آ کے رکی ۔۔سیاہ پرانی کار اور کسی بت کی طرح سامنے دیکھتا ڈرائیو ر۔۔وہ خاموشی سے آگے بڑھی اور پچھلا دروازہ کھول کر بیٹھ گئی ۔۔اس کے دروازہ بند کرتے ہی ڈرائیور نے گاڑی آگے بڑھا دی۔۔ایک گھنٹے بعد وہ سیف ہاؤس تھی۔۔سفید دیواروں والا خالی کمرہ درمیان میں لکڑی کی کرسی۔۔اور میز جس پر اسے بٹھایا گیا میز پر صرف ٹیلیفون رکھا تھا ۔۔باکی پورا کمرہ خالی تھا ۔۔وہ مضطرب سی گردن گھما کر ادھر ادھر دیکھنے لگی۔۔تین طرف سفید دیواریں تھیں۔۔ان میں سے ایک دیوار میں وہ دروازہ تھا جہاں سے وہ آئ تھی ۔۔البتہ چوتھی دیوار شیشے کی بنی تھی۔دراصل وہ شیشے کی سکرین تھی جو زمین سے لے کر چھتہ تک تھی۔اس نے گور سے سکرین کو دیکھا اس کا شیشہ دھندھلا کر دیا گیا تھا۔۔ٹرن ٹرن ۔۔۔یک دم حیا کے سامنے میز پر رکھا فون بجنے لگا۔۔فون مسلسل بج رہا تھا وہ شخص اسےکال کر رہا تھا؟۔۔اس نے دھرکتے دل سے رسیور اٹھایا اور کان سے لگایا۔۔۔۔"ہیلو" اسلام علیکم مس حیا سلیمان thiz is meijor sulaiman..وہی بھاری خوبصورت سا لہجہ ۔۔وعلیکم سلام وہ فون ہاتھ میں پکڑے سامنے سکرین دیکھ رہی تھی۔جس کے پر آدھے جھلسے چہرے والا offiercer فون تھامے بیٹھا تھا ۔ کیا وہی meijor احمد تھا ؟؟میں امید کرتا ہوں ہم نے آپکو زیادہ تکلیف نہیں دی ۔۔جی ۔ اس کو گھٹن محسوس ہونے لگی تھی ۔۔میرے سامنے لیپ ٹاپ ہے۔مجھے ایک کلک کرنا ہے اور آپ کی ویڈیو صفہ ہستی سے ایسے مٹ جائے گی جیسے کبھی بنی ہی نا ہو ۔۔۔دیوار کے اس پار دھندہلے منظر میں بیٹھے افسر کے سامنے بھی لیپ ٹاپ کھلا پرا تھا ۔تو وہ ۔meijor ahmed تھا ؟وہ سامنے کیوں نی آتا تھا؟"اور شہر کے ایک ایک بندے سے مے یہ ویڈیو نکلوا چکا ہوں۔ بولے حیا کر دوں کلک؟اور۔۔ وہ روپورٹ ؟سمجھئے وہ درج ہو گئی۔ اسے لگا وہ مسکرایا تھا۔مگر۔۔ آپ نے کہا تھا کے مجھے رپورٹ کے لئے ۔۔۔۔۔غلط کہا تھا ۔۔۔ بعض اوقات بھہاننے بنانے پڑتے ہیں تب جب صبر نہیں ہوتا۔۔سمجھیں ؟یہ شخص اتنی عجیب باتیں کیوں کر رہا تھا؟آپ۔۔۔کلک کر دیں۔۔ اس نے کہا وہ شخص جھکا شاید بٹن دبانے اور پھر سیدھا ہو گیا۔۔" کر دیا "اوکے تھنک یو ۔۔M ahmed ۔۔۔۔۔ایک بات پوچھوں۔۔۔؟جی۔۔کیا یہ ویڈیو جلی تھی؟نہیں۔تو اصلی ۔تو آپ اتنی ڈر کیوں رہی تھی ؟ظاہر ہے یہ ہماری فیملی ویڈیو تھی اور شادیوں پر ڈانس کی ویڈیو ہم نہیں بنواتے۔۔۔اوکے ۔۔۔۔ایک اور بات پوچھوں ؟جی ۔۔۔کبھی کوئی آپ کے لئے جنّت کے پتے توڑ کر لایا ہے؟؟ہم دنیا والوں نے جنّتیں کہاں دیکھی ہیں M ahmed! اس کے چہرے پر تلخی تھی۔۔تب ہی تو ہم جانتے نہیں کے جنّت کے پتے کیسے دکھتے ہیں کبھی کوئی آپ کو لادے تو انہیں تھام لینا!۔۔وہ آپ کو رسوا نہیں ہونے دیں گیں۔۔********* احمد اس سے سوال پر سوال کر رہا تھا "ایک منٹ ایک آخری سوال کرنا ہے مجھے"وو اٹھتے اٹھتے بیٹھ گئی "جی بولئے """آپ مجھ سے شادی کریں گی""اسے زور کا dhachka لگا وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے دیوار کو دیکھنے لگی ۔۔بولئے مس حیا ۔۔۔اسے غصّہ آیا۔۔۔۔مس حیا نہیں مسسز حیا۔۔۔ ایک ایک لفظ چبا چبا کر بولتی وہ اٹھی فون ابھی تک ہاتھ مے تھا ۔۔۔کیا مطلب۔۔ وہ چونکا تھا ۔۔۔افسوس کے میرے بارے میں اتنی معلومات رکھنے کے باوجود آپ میرے بچپن میں ہونے والے نکاح سے بےخبر ہیں وہ نکاح جو میرے کزن جہاں سکندر سے میرے بچپن میں ہی پڑھا دیا گیا تھا ۔۔میں شادی شدہ ہوں اور میرے حسبند ترکی میں رهتے ہیں۔۔۔اہ آپ کی وہ فیملی جو کبھی پاکستان آئ ہی نہیں ۔۔۔۔جانتا ہوں آپ کی پھپھو کا خاندان جو شاید ذلّت اور شرمندگی کے مارے اب شاید کبھی ادھر کا رخ نہیں کرے گا۔۔۔آخر کارنامہ بھی تو بہت شرمناک انجام دیا تھا نا۔۔ اب ان کا انتظار کر رہی ہیں آپ۔۔۔ارے بچپن کا نکاح تو کورٹ کی ایک ہی پیشی میں ختم ہو جاتا ہے ۔شٹ اپ جست شٹ اپ M احمد وہ چللائی ۔۔آپ کی ہممت بھی کیسے ہوئی یہ بات کرنے کی ارے بھار میں جاؤ آپ اور آپ کی وہ ویڈیو ۔۔آپ بھلے اسے ٹی وی پر چلا دو مجھے پرواہ نہیں ۔۔میرا ایک کام کرنے کی اتنی قیمت وصولنا چاھتے ہیں آپ۔۔۔۔رہی بات جہاں سکندر کی تو وہ میرا شوہر ہے مجھے بہت محبّت ہے اس سے ۔۔اس کے علاوہ میری زندگی میں کوئی آ نہیں سکتا سمجھے آپ۔۔۔۔رسیور واپس رکھنے سے قبل اس نے سوگواریت بھرا قہقہ سنا تھا ۔۔پیر پٹخ کر وہ دروازے کی جانب بڑھی اسی لمھے دروازہ کھول کر ایک سپاہی اندر آیا ۔۔۔جو اسے اندر بٹھا کر گیا تھا ؛اسے فورن اشارہ کر دیا گیا تھا ۔۔ملاقات ختم ہو چکی تھی اور حیا کے لیے وہ بیحد تلخ ثابت ہوئی تھی ۔۔۔۔۔جس لمحے وہ پرانی کار کی پچھلی سیٹ پر بیٹھی سپاہی نے اسے سرخ گلابوں والا بو کے اسے دیا ۔۔۔مگر ان کے ساتھ کوئی خط نا تھا مگر پھر بھی اسے یقین ہو گیا وو گمنام خطوط بھیجنے والا بھی احمد ہے تھا۔۔۔۔وو اسے بہت پہلے سے جانتا تھا۔۔۔"یہ جا کر اپنے میجر احمد کے منہ پر مار دو"۔۔۔۔اس نے بو کے سپاہی کے بازوں پر پھینکا اور دروازہ بند کر لیا گاڑی زن سے آگے بڑھ گئی۔۔۔***********حیا۔۔۔حیا۔۔۔شام میں ارم ہوئی بھاگتی ہوئی آئ خوشی اس کے انگ انگ سے پھوٹ رہی تھی ۔۔" وہ ویڈیو اس ویب سائٹ سے ریموو ہو گئی ہے " اس نے حیا کو بتایا ۔۔۔۔مگر کیسے ہوا یہ سب۔۔۔"اس ویب سائٹ والے کو خوف خدا آ گیا ہو گیا مجھے کیا پتا" وہ لاپرواہی سے انجان بن گئی۔۔۔۔ہوں شاید؛ مگر اچھا ہی ہوا اور ہاں تمہاری ترکی کی فلائٹ کب ہے ۔۔۔۔"پتا نہیں پہلے پاسپورٹ تو ملے پھر ہی ویزا ملے گا۔۔"اس کو ارم کی مجودگی سے کوفت ہونے لگی تھی ۔۔۔ارم جلدی ہی اٹھ کر چلی گئی وہ پھر سے سوچوں مے گم گئی۔۔میجر احمد۔۔، اس کا آدھا جھلسا چہرہ۔۔۔۔سامنے نا آنا۔۔۔ اور اس کی وہ اجیب فلسفیانہ باتیں ۔۔۔جننت کا تذکرہ۔۔۔۔۔اور پھر مجھ سے شادی کآ سوال۔۔۔۔ اہ میرے خدایا ۔۔۔۔!" آپ کی پھپھو کا خاندان جو ذلّت اور شرمندگی کے مارے اب شاید ادھر کا رخ کبھی نہیں کرے گا"۔۔۔۔کیوں کہی تھی اس نے یہ بات۔۔۔۔۔اور وہ خطوط وہ گلدستے وہ بھی اسی نے بیجھے تھے اس کو سپانجی جانے کا کیسے علم ہوا۔۔۔۔یقیناً وہ اس کی کال ٹیپ کر رہا تھا جب زارا نے اس کو بتایا تھا ۔۔۔ اور وہ اس وقت گھر کے باہر ہی ہو گا مگر گلدستہ تو کچن کی ٹیبل پر رکھا تھا ۔۔۔تو کیا وو ان کے گھر بھی داخل ہو سکتا تھا اور اس کے کمرے میں بھی۔۔۔۔۔خوف کی لہر نے اسے اپنے حصار میں لے لیا وہ کر دروازہ بند کرنے ہی لگی تھی کے فاطمہ بیگم اندر آئ "حیا۔۔تمہارے ابّا تمہیں بلا رہے ہیں"اوکے آ رہی ہوں ۔۔۔ابّا۔۔۔اس نے ان کے کمرے کا دروازہ knock کیا ۔۔۔آ جاؤ حیا۔۔۔سامنے سلیمان صاحب بیٹھے تھے سوچون مے گم اور ایک طرف فاطمہ بیگم مجود تھی ۔۔۔۔آپ نے بلایا تھا ابّا ۔۔۔ہاں اؤ بیٹھو ۔۔۔میں نے ایک فیصلہ کیا ہے "اب تمہیں کورٹ سے سبین کے بیٹے سے طلاق لے لینی چاہیے ۔۔۔کوئی اس کے منہ پر چابک دے مارتا تو شاید تب بھی اسے اتنا دکھ نا ہوتا جتنا اب ہوا تھا ۔۔۔میں نے وکیل سے بات کر لی ہے عدالت کی ایک پیشی سے طلاق مل جائے گی اور جتنے بےزار وہ ہم سے ہیں انھیں اس بات سے بہت خوشی ہو گی ۔۔" ابّا کیا یہ واحد حل ہے "بہت دیر بعد وو بولی ۔۔کیا اس کے علاوہ بھی کوئی حل ہے کس قیمت پر ہم یہ رشتہ نبھائیں جب وہ کوئی امید ہی نہیں دلاتے ۔۔۔۔اگر آپ کو واقعی لگتا ہے آپ میرا گھر بسانا چاھتے ہیں تو آپ مجھے ترکی جانے دیں وہاں جا کر میں اس کو تلاش کروں گی ۔۔۔۔اور پوچھوں گی اگر وہ گھر بنانا چاہتا ہے تو ٹھیک ہے۔۔۔۔ ورنہ مجھے طلاق دے دے۔۔۔۔اگر نہیں دیتا تو مے کورٹ چلی جاؤں گی ۔۔۔مگر مجھے ایک آخری کوشش کر لینے دیں پلیز ۔۔۔وہ خاموش ہو گے شاید قائل ہو گے تھے ۔۔۔" ابّا آپ مجھے پانچ ماہ کا وقت دیں " اس نے کہا اور کمرے سے باہر چلی گئی ۔۔۔۔***********وہ خطبی لڑکی اسے کلاس کے باہر مل گئی تھی جب اس نے حیا کو روک لیا سنیئے مس سلیمان ۔۔حیا نے کوفت سے پلٹ کر دیکھا ۔۔۔جہاں خدیجہ رانا کھڑی تھی ۔۔ڈی جے ۔۔جسے ڈی۔۔جے صرف اس کے فرینڈز۔ کہا کرتے تھے وہ اس کی فرینڈ نا تھی اور نا ہی بننا چاہتی تھی ۔۔۔جی خدیجہ۔۔ اس نے ذرا مرووت سے جواب دیا ۔۔۔آپ نے ویزا کے لیے اپپلائی کر دیا ۔۔۔میڈم فرخندہ نے کہا ہے ہم دونو کو جلد از جلد ویزا کے لئے اپپلائی کرنا چاہیے۔۔۔ہمارے پاس بس پندرہ دن ہیں اور ترکی کا ویزا 15 دن میں کبھی نہیں لگا کرتا ۔۔وہ تیز تیز بولے جا رہی تھی اس کی بات کچھ ایسی تھی کے حیا کو سنجیدہ ہونا پرآ۔۔اہ تو اب ہمے کیا کرنا چاہے ۔۔"کل ترکش embaisi جانا ہو گا ان کا عجیب سا rule ہے کے ہر روز سب سے پہلے انے والے 15 امید واروں کا ہی انٹر ویو ہوتا ہے ۔۔۔آپ مجھے اپنا نمبر لکھوا دیں ۔۔۔۔اس نے بے دلی سے اپنا نمبر لکھوا دیا ۔۔۔۔خدیجہ اسے اپنے فون میں نوٹ کرتی گئی۔۔۔ٹھیک ہے صبح 6 بجے آپ diplomatic پہنچ جائے گا میں ووہیں ہوں گی۔۔۔اس نے اچھا کہ کر جان چھڑانے والے انداز مے سر ہلا دیا۔۔۔اور پلیز دیر مت کرنا یہ نا ہو کے آپ کی وجہ سے میرا ویزا بھی رہ جائے اآخر ۔۔۔وہ بھی خدیجہ رانا ہے۔۔۔کیا compny ملی ہے مجھے اف۔۔۔ وہ پیر پٹخ کر آگے بڑھ گئی۔۔۔۔*******سیاہ جیکٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے وہ چل رہی تھی ۔۔اماں اور ابّا کی کہی گئی باتیں دل و دماغ میں گھوم رہی تھی ۔۔وہ سیٹی کی تیز آواز تھی جس نے اسے خیالوں کے ہجوم سے نکالا۔۔اس نے چونک کر سر اٹھایا ۔۔وہ تین لرکے تھے مختلف سمتوں سے اس کی طرف آ رہے تھے جگہ قدرے سنسان تھی۔۔خالی چبوترہ تاریکی میں دڈوبا تھا ۔۔روشن دکانیں دور تھی ۔۔۔اس کا دل دھک سے رہ گیا وہ تیزی سے پلتی ادھر سے بھی ان کا کوئی چوتھا آ رہا تھا۔۔ان میں سے ایک لڑکے نے اس کو کلائی سے تھام کر اپنی طرف کھینچا تھا۔۔ابھی اس کے لبوں سے چینخ بھی نہیں نکلی تھی ۔۔آگے برھننے والآ خود بوکھلا کر پیچھے ہٹا تھا۔۔ٹن کی زور ڈر آواز کے ساتھ کسی نے اس لرکے کے سر پر کچھ مارا تھا۔۔۔"مرن جوگو ۔۔۔۔۔ باجی کو تنگ کرتے ہو ۔۔۔چھوڑو ں گی نہیں میں تمہیں ۔۔۔۔"وہ اونچی لمبی ڈولی ہاتھ میں پکرے فرائی پین کو گھما گھما کر مار رہی تھی۔۔۔۔حیا حکا بککا رہ گئی۔۔جس کو لگا تھا۔ وہ سر پکڑے ھوے بھگا باکی بھی پیچھے بھاگے۔۔۔وہ تیز تیز قدموں سے چبوترے کی جانب برھننے لگی۔۔۔" ارے باجی گل تے سنو"وہ اس کے پیچھے بھاگا۔۔حیا چلتے چلتے رکی ۔۔اور پلٹ کر اسے دیکھا۔۔کیا۔۔ہے۔۔ہاۓ ربّا۔۔۔ باجی تسی کینے سونے ہو ۔۔۔۔وہ چپ چاپ اسے دیکھنے لگی۔۔"شکریہ ہی بول دو باجی۔"شکریہ ۔۔اور کچھ۔"تسی تے ناراض لگ دے اہ جی۔۔ڈولی۔۔تم کیوں ہر جگہ میرے پیچھے آ جاتے ہو۔۔۔۔ہاں تے تہاڈی ہمیشہ مدد کیتی اے ۔۔۔تمہیں کس نے کہا ہے میری مدد کرنے کو۔۔"کس نے تمہیں میرے پیچھے لگایا ہے ۔۔بولو جواب دو ۔۔"ڈولی کا منہ آدھا کھلآ رہ گیا لینز لگی آنکھوں میں حیرت اور پھر آنسو تیرنے لگے۔۔۔۔کسی نے نہیں جی بری دیر بعد وہ دکھ سے بولآ "مجھے آپ اچھی لگتی ہو جی "اس لئے آپ کا خیال رکھتی ہوں آپ کو برا لگتا ہے تو نہیں آؤں گی۔۔اسے لمھے حیا کا فون بجا ۔۔۔اس نے چونک کر ہاتھ میں پکرے موبائل کو دیکھا اس پر private number calling آ رہآ تھا۔۔جاری ہے۔۔

No comments:

Post a Comment


I try to read a message of peace will be good, God willing, I will get some useful articles and poetry about qraan ahadees Also of interest to women and children will be provided