Tuesday, 7 July 2020

Earn Money For Home

https://codebeautify.org › jsonviewer

Web results

file:///storage/emulated/0/Download/bkm.xml - Code Beautify
file:///storage/emulated/0/Download/bkm.xml - Code Beautify
https://www.gab.ag/?ref=tanvirsss

Earn unlimited
Get Paid to View Ads Daily.
Win Cash playing GABgrid.
Make Money with Referrals.
Collect Points and More...
JOIN FOR FREE!
Promote GAB. Invite other people and increase your earnings
Our Members Benefits
As a member of GAB, you get a chance to earn money for viewing simple advertisements daily.
You can increase your earnings, by referring others and/or Upgrading your Membership.
You can also earn points based on your activity and you can Win Cash with our GABgrid game.

Whats Included:
10 Daily ads Guaranteed every single day
Different ads available at random times
Upto 30 chances Daily with our GABgrid
Upgrade your Membership and Earn more
Get a commission if your referrals upgrade
Earn points based on your activity on GAB
Advertise with GAB
You can advertise your website or affiliate link on GAB, to help increase your sales and boost traffic. Advertising with us is simple, efficient and you are guaranteed many views. We have several options for our advertisers to choose from. You can even choose the length of each advertisement displayed.

Whats Included:
Advertise your website link or banner on GAB
Many great features to choose from for your ad
Anti-cheat protection helps protect your ads
Detailed statistics and live view of your stats
Advertise with GABgrid - many days at a time.
Super Advertising Packages are Now Available.




FAQ • Terms of Service • Payments • Support

© 2017-2020 GAB.ag All Rights Reserved.

Friday, 3 July 2020

ناول جنت کے پتے قسط 5


ناول = جنت کےپتے
تحریر= نمرہ احمد قسط نمبر . 5

ناول = جنت کےپتے
تحریر= نمرہ احمد
قسط نمبر 5
خیر ویزہ کل تک سٹیمپ ہوجائے گا آپ دونو میں سے کوئ ایک آکر شام 4بجے پاسپورٹ پک کر لے انکے دل میں بے حد خوشی ہوئ....
آئ ایم سوری حیا" آئ ایم سوری خدیجہ بیک وقت دونو کے منہ سے نکلا پھر وہ ہنستے ہوئے ایک دوسرے کے گلے لگ گئ باآلاخراسے یقین آگیا تھا کے وہ ترکی جارہی ہے اور پورے پانچ ماہ کے لئے جہاں وہ رہتاجو ہر وقت اسکے دل کے پاس رہتا ہے....
ویلکم می اوسبانجی....
********** عمیر راجپوت********
بھائ تو چلے گئے تھے مجے ڈراپ کر کے میں آپکے سیل سے انکو کال کر لوں وہ مجھے پک کر لیں گے "نو پرابلم میں ڈراپ کر دوں گی خدیجہ آپ مجے ڈی جے اور تم کیہ سکتی ہے اس نے گاڑی کا لاک کھولا " مجے سپر جناح جانا تھا یوں نہ کریں کے کچھ شاپنگ کر لیں؟ آپ نے کچھ تو لینا ہوگا خدیجہ؟ سوئیٹرز لینے ہیں وہاں بہت سردی ہے .. پھر وہیں چلتے ہیں.......
سائینوشور کے بلمقابل چبوترہ خالی تھا مگر دن میں اتنا ویران نہیں لگ رہا تھا جتنا رات کو تھا اور وہ آواز وہ سر جھٹک کر آگے بڑھ گئ.....
اوہ نیڈل امیبریشنز پہ سیل لگی ہے . آئیں کچھ دیکھ لیتے ہیں وہ کافی دنوں سے سوچ رہی تھی یہاں سے کوئ اچھا شرٹ پیس لے آئے اورآج آج تو سیل بھی لگی تھی ... وہ اور خدیجہ اندر داخل ہوئ شاپ کے اندر وہی مخصوص ماحول تھا ہیٹر کی گرمی اور ہر ترف پھیلے کڑائ والے کپڑے .. ایک سیلز مین دیکھ کر فوراً متوجہ ہوا "جی میم" یہ پنک والا دکھائیں "میم یہ میں سامنے رکھا ہے اس نے بائیں جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا جہاں ایک فیملی پہلے سے کھڑی دیکھ رہی تھی اوہ تھینکس " وہ خوبصورت کڑھائ والا شرٹ کا فرانٹ پیس پھیلا ہوا تھا .....
حیا کے بلکل بائیں جانب ایک نوجوان سر جکائے کھڑا تھا اس کے ساتھ ایک نفیس معمرسی خاتون اور کم عمر لڑکی کھڑی تھی "ممی یہ پنک والا لے لیتے ہیان ثانیا بھابی کا کمپلیکشن فئیر ہی ان پر سوٹ کرے گا کیوں بھائ ؟ وہ اب نوجوان کی رائے مانگ رہی تھی .. حیا ناچاہتے ہوئے بھی اسکی طرف متوجہ ہوئ اسے بس اسی بات کی جلدی تھی کب وہ نوجوان اس کپڑے کو چھوڑے اور کب وہ دیکھ پائے حیا اس کے پکڑے کپڑے کو دیکھ رہی تھی جب اس کی نگاہیں کپڑے سے اس شخص کی کلائ پر پڑی وہ ایک دم چونکی اس کی کلائ پر کانٹے کا سرخ گلابی نشان تھا جیسے جلا ہو ..........
وہ درازقد تھا رنگ صاف چہرے پے سنجییدگی اور آنکھوں پر فریم گلاسز تھے وہ جیکٹ میں ملبوس اچھا خاصا سمارٹ تھا ...
پھر اسکی بہن نے اسکے ہاتھ سے آرام سے کپڑا کھینچا اب اسکی انگلیاں نظر آرہی تھی جن کے اوپر والے پوروں میں قدرتی لکیر پڑی تھی اسے بے اختیار شیشے میں آئ انگلیاں یاد آگئ ....
بہت احتیات سے اس نے اِدھر آدھر دیکھا آس پاس کوئ اس کے جاننے والا نہیں تھا ... "پنکی" اس نے کھڑے نوجوان کی طرف چہرہ کر کے بلند آواز سے پکارا وہ اپنی بہن کی سمت دیکھ رہا تھا اس نے شاید سنا نہیں اس کی بہن حیا کواپنی طرف دیکھتا پا کےبولتے بولتے رکی اس نے پنکی زرا زوور سے پکارا .... کم عمرلڑکی نے اس دیکھا اس کی ماں بھی اسی طرف دیکھنے لگی تھی ان دونو کا یوں حیا کو دیکھنے کی وجہ سے نوجوان نے بھی گردن موڑی حیا نے دیکھا اس نوجوان کا چہرہ جھلسا ہوا تھا جھلسنے کے نشان بہت گہرےنا تھے ......
پنکی ڈولی کہاں ہے ؟ وہ اس نوجوان کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے تیکھے انداز میں بولی وہ الجھ سا گیا "سوری"؟ میں نے پوچھا ڈولی کہاں ہے......
کون میں سمجھا نہیں وہ دھیمے اور الجے ہوئے لہجے میں بولا.. اگر آپکے دماغ پر چوٹ لگنے سے یاداشت کھوگئ ہے تو میں آپکو یاد کروا دیتی ہوں .. ڈولی وہ آپکا خواجہ سرادوست جس کے ساتھ آپ روز خواجہ سرابنے سڑک پربھیک مانگ رہے تھے پنکی نام بتایا تھا ناآپ نے اسکی آنکھوں میں غصہ درآیا وہ زرا برداشت کرکے بولا "میڈم" آپکو غلط فہمی ہوئ ہے میں آپکو جانتا تک نہیں ...
مگر میں آپکو بہت اچھے سے جانتی ہوں یہ آپکی انگلیوں کےنشان میری گاڑی کے شیشے میں پھنسنے کے باعث ہی آئے تھے مجے یاد ہےمسٹر"
آپ کون ہیں اورپرابلم کیا ہے ؟ آپکو وہ لڑکی مزید نہیں برداشت کر سکی تھی...
میں وہ ہوں جس نے آپکے بھائ کو خواجہ سرا بنے دیکھا تھا..
اٹس انف" اس نوجوان نے غصہ سے کھڑ کا. میں شرافت سے آپکی بکواس سن رہا ہوں اور آپ بے لگام ہوتی جا رہی ہیں اس سے آگے آپ نے کچھ فضول بولا تو اچھا نہیں ہوگا ...
اتنی ہی شرافت ہے آپ میں تو خواجہ سراکیوں بنے تھے.. کسی نےاس کے عقب میں کہا تو وہ چونکی . خدیجہ برابر آن کھڑی ہوئ تھی حیا کو ڈھارس سی ملی ..
آپکا دماغ خراب ہے اپنی بہن کوسمجھائیں میرے بھائ سےتعارف کااچھابہانہ ڈھونڈا انہوں نے لڑکی بھڑک کربولی... شاپ میں سب لوگ چھوڑ کر انکو دیکھ رہے تھے...
تعارف مافٹ خدیجہ نے جوباً بولا .. آپکے بھائ کو خواجہ سرا بنا میں نے بھی دیکھا تھا میں دس اور آدمی لاسکتی ہوں جواس بات کی گواہی دیں گے....
عجیب خاتون ہیں آپ خوامخوا تنگ کیے جا رہی ہیں.. "سر,میڈم" شاپ مینجر تیزی سے انکی طرف آیا تھا ادھر تماشا نہ کریں دوسرے کسٹمر ڈسٹرب ہورہیے ہیں ... اوہ میجرصاحب... اب اس نے نوجوان کا چہرہ دیکھا اور حیرت سےبولا .. بہت معزرت سر پھر وہ حیا کی طرف مڑا آپ پلیز شور نہ کریں اگر آپ خریداری نہیں کرنی تو جاسکتی ہیں....
آپ ہوتے کون ہیں مجھے شاپ سے نکالنے والے...
احمدبھائ چلو ہم ہی چلے جاتے ہیں ان کا تودماغ خراب ہے لڑکی نے خفگی سے کہا اورپلٹی...
وہ نوجوان ایک تنفر بھری نگاہ اس پر ڈال کر دروازے کی طرف بڑھ گیا....
توبہ ہےآج کل کی لڑکیوں کی اسکی ماں نے ناپسندیدگی سے کہا ... وہ لب بینچے کھڑی انہیں جاتے دیکھے گئ... اسے اس شخص کےمیجر احمد ہونے کا شبہ نہیں رہ گیا تھا ....
حیا اس سے پہلے کہ یہ مینجر ہمیں دکھے دے کر نکالے ہم بھی کھسک جائیں ڈی جے نے کہا پھر وہ آگے بڑھ گئ ...
باہر اس نے کھلے میں آکر کہا تھینک یو ڈی جے پہلی بار اس نے خدیجہ کواس کے معروف نام سے پکارا تھا ....ڈی جےبے ساختہ ہنس دی مجھے پتا تھا آپ جھوٹ نہیں بولتی آپ نےواقعی دہکھا ہوگا جو کیہ رہی تھی .. مگر ڈی جےمیں نے اسے واقعی جواجہ سرا بنے دیکھا تھا "حیا" آپ نے اسےبس خواجہ سرابنے دیکھاتھا؟ ہوسکتا وہ صرف ایڈوانچر کے لیے ایسا بنا ہوں "پتا نہیں" چلو چلتے ہیں وہ آگے بڑہی....
جاری ہے

Tuesday, 30 June 2020

جنت کے پتے ناول پارٹ 4

I try to read a message of peace will be good, God willing, I will get some useful articles and poetry about qraan ahadees Also of interest to women and children will be provided



جنت کے پتے 
از نمرہ احمد



ناول؛ جنت کے پتے 

از-- نمرہ احمد

قسط 4

وہ معزرت خواہانہ مسکراتی ہوئ گیٹ کی جانب بڑھ گئی۔ باہر آ کر اس نے بے اختیار آنکھوں کے بھیگے ٗگوشے صاف کیے اور ایک نظر ان کو پلٹ کر دیکھا، پھر سر جھٹک کر آگے بڑھ گئی۔

       ان کے گھر کے ساتھ خالی پلاٹ میں شامیانے لگا کر مہندی کا فنکشن ارینج کیا گیا تھا۔ مہندیاں دونوں گھروں کی الگ الگ تھیں۔
        گیندے کے پھولوں اور موتیے کی لڑیوں سے ہر کونا سجا تھا۔ تقریب سیگریگیٹڈ تھی۔ مرد الگ، عورتیں الگ۔ ہاں عورتوں کی طرف خاندان کے مردوں کا آنا جانا لگا تھا۔مریم بھی سلور کامدار لہنگے میں ادھر  ادھر گھوم رہی تھی۔ وہاں ڈی جے ، مووی والے اور ریفریشمنٹ سرو کرتے باہر کے مرد تھے  مگر آج تو شادی  کا ایک  فنکشن تھا، پھر سر ڈھکنے کی پابندی کیسے ہوتی؟ شادیوں پہ تو  خیر ہوتی ہے نا۔

       ”حیا! ڈانس شروع کریں؟” ارم اپنا لہنگا سنبھالتی ہوئی اس کے پاس آئ۔
        ”ہاں! ٹھیک ہے ،تم گانا لگواؤ اور٠٠٠٠٠٠٠٠ یہ کون ہے؟“ سامنے والی کرسیوں کی قطار کے ساتھ کھڑی ایک لڑکی کرسی پہ بیٹھی خاتوں سے جھک کر مل رہی تھی۔ اس نے سیاہ عبایا اور اوپر اسٹول لے رکھی تھی۔ عجیب بات تھی کہ اس لڑکی نے انگلیوں سے نقاب تھام رکھا تھا۔
         ”کون”؟ ارم نے پلٹ کردیکھا، پھر گہری سانس لے کر مڑی ۔ ”یہ ایلین ہیں”۔
        ”کون؟” حیا نے حیرت سے کہا۔
         ”ایلین، ارے  شہلا بھابھی ہیں یہ۔ پوری  دنیا  سے الگ ان کی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد ہوتی ہے۔ بس توجہ کھینچنے کے لیے فنکشنز پر بھی عبایا، نقاب میں ملتی ہیں۔ اب پوچھو، بھلا عورتوں کے فنکشن میں کس سے پردہ کر رہی ہیں؟”
        ”ہاں، واقعی، عجیب ہیں یہ بھی!” اس نے شانے اچکائے۔ وہ ان کے ایک سیکنڈ  کزن کی وائف تھیں اور سال بھر پہلے ہی شادی ہوئی تھی۔

        ڈی جے نےگانا سیٹ کر دیا۔
        انہوں نے مووی والے کو ڈانس کی مووی بنانے سے منع کر دیا اور پھر اپنا مہارت سے تیار کردہ رقص شروع کیا۔ ایک سنہری پری لگ رہی تھی تو دوسری چاندی کی۔ جب پاؤں دکھ گئے اور خوب تالیاں بجیں تو وہاں ہنستے ہوئے کرسیوں کی طرف آئیں۔
      
       "السلام علیکم شہلابھابھی!" وہ لڑکی بھی اسی میز پر موجود تھی۔ ارم نے فوراً سلام کیا، حیا نے بھی پیروی کی۔
       ”وعلیکم السلام٫ کیسی ہو تم دونوں؟“ وہ مسکرا کر خوش دلی سے ملی۔ ایک ہاتھ کی دو انگلیوں سے اس نے ابھی تک سیاہ نقاب تھام رکھا تھا۔
بالکل ٹھیک٫ شہلا بھابھی! نقاب اتار دیں٫ ادھر کن ہے؟“
شہلا نے جواباً مسکرا کر سر ہلایا، مگر نقاب اسی طرح پکڑے رکھا۔
” ما شاءاللہ تم دونوں بہت پیاری لگ رہی ہو“۔
وہ بات کرتے کرتے ذرا سی ترچھی ہوگئ۔ حیا نے حیرت سےدیکھا۔ شاید اس طرف مووی والا فلم بنا رہا تھا،  اسی لیے۔
عجیب عورت ہے، اتنی بھی کیا بے اعتباری، ہماری فیملی مووی ہے، ہم کون سا باہر کسی کو دکھائیں گے۔حیا بڑبڑائ۔
پھر وہ جلد ہی وہاں سے اٹھ گئ۔ اماں جانے کدھر تھیں۔ کس سے پوچھے سبین پھوپھو آئی ہیں ی نہیں۔ کافی دیر اسی شش و پنچ میں مبتلا رہی، پھر گھر چلی آئی اور ٹی وی لاؤنج میں فون کے ساتھ رکھی ڈائری اٹھائی۔ تھکن کی وجہ سے دھم سے صوفے پر گری ۔ ار سبین پھوپھو کا نمبر تلاش کرنے لی۔ اس نے کبھی ان کو یوں فون نہیں کیا تھا، مگر آج دل کے ہاتھوں ہار گئی تھی۔ ترکی کا وہ نمبر مل ہی گیا۔ اس نے ریسیور اٹھایا اور نمبر ڈائل کیا۔ گھنٹی جانے لگی تھی۔ اس کے دل کی دھڑکن تیز ہوگئی۔ پانچویں گھنٹی پر فون اٹھا لیا گیا۔
ہیلو“۔
بھاری مردانہ آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی۔

********
”ہیلو“۔ بھاری مردانہ آواز اس سے ٹکرائی۔
”اسلام علیکم“۔ اس نے خشک لبوں پر زبان پھیری۔
جواباً وہ کسی انجان زبان میں کچھ بولا۔
”میں پاکستان سے بات کر رہی ہوں“، گڑبڑا کر انگریزی میں بتانے لگی۔
پاکستان سے کون؟ اب کے وہ انگریزی میں پوچھ رہا تھا۔
اس کی آنکھوں میں پانی بھرنے لگا۔
میں سبین سکندر کی بھتیجی ہوں۔ پلیز ان کو فون دے دیں۔
وہ تو جواہر گئی ہیں، کوئی میسج ہے تو بتا دیں۔ وہ مصروف سے انداز میں کہہ رہا تھا۔ اب یہ جواہر کیا تھا، اسے کچھ اندازہ نہ تھا۔
وہ۔۔۔۔۔ وہ سبین پھوپھو نے پاکستان نہیں آنا کیا داور بھائی کی شادی پر؟
نہیں وہ بزی ہیں۔ شاید وہ فون رکھنے ہی لگا تھا کہ وہ کہہ اٹھی۔
آپ۔۔۔۔۔۔ آپ کون؟
ان کا بیٹا۔۔۔۔۔۔۔ جہاں! کھٹ سے فون رکھ دیا گیا۔
اس نے بھیگی آنکھوں سے ریسیور کو دیکھا اور پھر زور سے کریڈل پہ پٹخا۔ آنسو صاف کیے اور اٹھ کر باہر آئی تو گیٹ کی طرف سے ظفر چلا آ رہاتھا۔ اس کے ہاتھ میں سفید ادھ کھلے گلابوں کا بکے تھا۔
وہ بے اختیار ٹھٹکی کر رکی، پھر لہنگا سنبھالتی، زینے اتر آئی۔
یہ کیا ہے ظفر؟
اوہ تسی اتھے ہو؟ یہ کوریئر والے نے دیا ہے تہاڈے لیے۔ ظفر نے گلدستہ اور ایک بند لفافہ اس کی طرف بڑھایا۔ وہ پچھلے سات سال سے تایا فرقان کا ملازم تھا۔ 
ٹھیک ہیے تم جاؤ۔اس نے بوکے کو بازو اور سینے کے درمیان پکڑا اور دونوں ہاتھوں سے بند لفافہ کھولنےلگی۔
حسب معمول اس میں سفید سادہ کاغذ تھا، جس کے بالکل درمیان میں اردو میں ایک شطر کھی تھی۔

”اس لڑکی کے نام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو کبھی کسی ان چاہے رشتے کے بننے کے خوف سے روتی ہے تو کبھی کسی بن چکے ان چاہے رشتے کے ٹوٹنے کے خوف سے“۔

وہ سن رہ گئی پھر گبھرا کر ادھر ادھر دیکھا۔
گیٹ کھلا تھا۔ مہندی والی جگہ سے بہت سے لوگ آ جا رہے تھے۔ ایسے میں کیا کوئی ادھر تھا جو بغور مشاہدہ کر رہا تھا؟
اس نے لفافے کو پلٹا۔ کوریئر کی مہر ایک روز قبل کی تھی۔
ابھی دس منٹ قبل وہ جہان کے ساتھ پہلی دفعہ بات کرکے روئی تھی۔
بن چکا ان چاہا رشتہ۔
اور گھنٹہ بھر پہلے ولید اور اس کے والدین سے ملی تھی۔
پان چاہے رشتے کے بننے کے خوف۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کون تھا جو اتنا با خبرتھا؟ ایک دن قبل ہی اسے کیسے علم ہواکہ وہ آج دو دفعہ روئے گی؟
وہ خوف زدہ سی کھڑی بار بار وہ تحریر پڑھے جا رہی تھی۔
              
جاری ھے

Tags :DilEpisodeFreeislamicJannat_Kay_PattayLoveNamra_AhmedNimra_AhmadPakistaniPDFPiyarsocialSuspenseThrillUrdu


search in hadith


Search in the Hadith



Search: in




Download Islamic Softwares FREE | Free Code

www.SearchTruth.com

to read a message of peace will be good, God willing, I will get some useful articles and poetry about qraan ahadees Also of interest to women and children will be provided

prayer times worldwide




Search Truth Prayer Times Worldwide
Country:

try to read a message of peace will be good, God willing, I will get some useful articles and poetry about qraan ahadees Also of interest to women and children will be provided

Search in the Quran

I try to read a message of peace will be good, God willing, I will get some useful articles and poetry about qraan ahadees Also of interest to women and children will be providedI try  





Search in the Quran
Search in the Quran






Search in the Quran:


 in












Download Islamic Softwares FREE | Free Code



www.SearchTruth.com




 read a message of peace will be good, God willing, I will get some useful articles and poetry about qraan ahadees Also of interest to women and children will be provided

Monday, 29 June 2020

جنت کے پتے قسط. 3

I try to read a message of peace will be good, God willing, I will get some useful articles and poetry about qraan ahadees Also of interest to women and children will be provided


ناول:جنت کے پتے
 تحریر
نمرہ احمد قسط:3

حیا حیا۔ وو جیسے ہی گھر میں داخل ہوئی سلیمان صاحب تیزی سے اس کی طرف اے ان کے چہرے پر غصّہ تھا تب ہی فون کی گھنٹی بجی یہ ویڈیو تمہاری ہے تم مجرا کرتی ہو روحیل جو صوفہ پر بیٹھا تھا ایک دم اٹھا اور بہت زیادہ cdz اس کی طرف پھینک دی وہاں سب موجود تھے تایا فرقان داور بھائی روحیل اور ایک طرف ارم زمین پر بیٹھی رو رہی تھی دور کہی فون کی گھنٹی بج رہی تھی نہیں نہیں وو ان کو کہنا چاہتی تھی اس کا منہ تو ہلتا تھا پر آواز نہیں نکل رہی تھی وو سب اس کا خون لینے پے تلے تھے سلیمان صاحب آگے برھے اور اس کے منہ پر تھپپر مارا بے حیا بے حیا اسے تھپڑوں سے مارتے حوے سلیمان صاحب کہ رہے تھے ان کے لب حل رہے تھے مگر ان سے آواز ڈولی کی نکل رہی تھی وو سلیمان صاحب نہیں ڈولی بول رہی تھی ڈولی ڈولی پنکی بے حیا پنکی کی انگلیاں فون کی گھنٹی وو ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھیکمرے میں اندھیرا تھا اس نے ہاتھ بڑھا کر ٹیبل لیمپ on کیا سب ٹھیک تھا کسی کو کچھ علم نہیں ہوا تھا وو سب ایک خواب تھا۔۔۔۔اہ خدایا ۔۔۔۔ اس کا سانس تیز تیز چل رہا تھا ۔۔۔دل ویسے ہی دھڑک رہا تھا۔۔۔پورا جسم پسینے سے بھیگا تھا ۔۔۔فون کو مخصوس tone اسی ترھا بج رہی تھی ہاں بس وو گھنٹی خواب نہیں تھی اس نے سائیڈ ٹیبل سے موبائل اٹھایا اور چمکتی سکرین کو دیکھا private نمبر caling.... اور پھر اس نے فون کان سے لگا لیا۔۔میجر احمد میں آپ کے آفس۔ آ کے رپورٹ درج کروانے کے لیے تیار ہوں ۔۔۔۔کل صبح نو بجے گاری بیجھ دیں اوکے اسے فاتحانہ لہجہ سنائی دیا تھا اس نے آہستہ سے فون بند کر دیا کبھی وو کسی لڑکے سے تنہا نہیں ملی تھی مگر نا ملنے کی صورت میں ویڈیو لیک ہو سکتی تھی اس خوفناک خواب نے اسے یہ سب کرنے پر مجبور کیا تھا ۔۔ اسے لگا اب اس کے پاس کوئی چارہ نہیں رہا meijor احمد سے تو وو نپٹ لے گی۔۔************پلے گراؤنڈ کے ساتھ درخت تھا ۔۔وہ اس کے پاس منتظر کھڑی تھی۔۔۔ارم یا زارا اس نے کسی کو نہیں بتایا تھا۔۔یہ خطرہ اس کو اکیلے مول لینا تھا۔۔اس نے گھڑی دیکھی نو بجنے میں ایک منٹ تھا۔اسی پل ایک کار زن سے اس ک سامنے آ کے رکی ۔۔سیاہ پرانی کار اور کسی بت کی طرح سامنے دیکھتا ڈرائیو ر۔۔وہ خاموشی سے آگے بڑھی اور پچھلا دروازہ کھول کر بیٹھ گئی ۔۔اس کے دروازہ بند کرتے ہی ڈرائیور نے گاڑی آگے بڑھا دی۔۔ایک گھنٹے بعد وہ سیف ہاؤس تھی۔۔سفید دیواروں والا خالی کمرہ درمیان میں لکڑی کی کرسی۔۔اور میز جس پر اسے بٹھایا گیا میز پر صرف ٹیلیفون رکھا تھا ۔۔باکی پورا کمرہ خالی تھا ۔۔وہ مضطرب سی گردن گھما کر ادھر ادھر دیکھنے لگی۔۔تین طرف سفید دیواریں تھیں۔۔ان میں سے ایک دیوار میں وہ دروازہ تھا جہاں سے وہ آئ تھی ۔۔البتہ چوتھی دیوار شیشے کی بنی تھی۔دراصل وہ شیشے کی سکرین تھی جو زمین سے لے کر چھتہ تک تھی۔اس نے گور سے سکرین کو دیکھا اس کا شیشہ دھندھلا کر دیا گیا تھا۔۔ٹرن ٹرن ۔۔۔یک دم حیا کے سامنے میز پر رکھا فون بجنے لگا۔۔فون مسلسل بج رہا تھا وہ شخص اسےکال کر رہا تھا؟۔۔اس نے دھرکتے دل سے رسیور اٹھایا اور کان سے لگایا۔۔۔۔"ہیلو" اسلام علیکم مس حیا سلیمان thiz is meijor sulaiman..وہی بھاری خوبصورت سا لہجہ ۔۔وعلیکم سلام وہ فون ہاتھ میں پکڑے سامنے سکرین دیکھ رہی تھی۔جس کے پر آدھے جھلسے چہرے والا offiercer فون تھامے بیٹھا تھا ۔ کیا وہی meijor احمد تھا ؟؟میں امید کرتا ہوں ہم نے آپکو زیادہ تکلیف نہیں دی ۔۔جی ۔ اس کو گھٹن محسوس ہونے لگی تھی ۔۔میرے سامنے لیپ ٹاپ ہے۔مجھے ایک کلک کرنا ہے اور آپ کی ویڈیو صفہ ہستی سے ایسے مٹ جائے گی جیسے کبھی بنی ہی نا ہو ۔۔۔دیوار کے اس پار دھندہلے منظر میں بیٹھے افسر کے سامنے بھی لیپ ٹاپ کھلا پرا تھا ۔تو وہ ۔meijor ahmed تھا ؟وہ سامنے کیوں نی آتا تھا؟"اور شہر کے ایک ایک بندے سے مے یہ ویڈیو نکلوا چکا ہوں۔ بولے حیا کر دوں کلک؟اور۔۔ وہ روپورٹ ؟سمجھئے وہ درج ہو گئی۔ اسے لگا وہ مسکرایا تھا۔مگر۔۔ آپ نے کہا تھا کے مجھے رپورٹ کے لئے ۔۔۔۔۔غلط کہا تھا ۔۔۔ بعض اوقات بھہاننے بنانے پڑتے ہیں تب جب صبر نہیں ہوتا۔۔سمجھیں ؟یہ شخص اتنی عجیب باتیں کیوں کر رہا تھا؟آپ۔۔۔کلک کر دیں۔۔ اس نے کہا وہ شخص جھکا شاید بٹن دبانے اور پھر سیدھا ہو گیا۔۔" کر دیا "اوکے تھنک یو ۔۔M ahmed ۔۔۔۔۔ایک بات پوچھوں۔۔۔؟جی۔۔کیا یہ ویڈیو جلی تھی؟نہیں۔تو اصلی ۔تو آپ اتنی ڈر کیوں رہی تھی ؟ظاہر ہے یہ ہماری فیملی ویڈیو تھی اور شادیوں پر ڈانس کی ویڈیو ہم نہیں بنواتے۔۔۔اوکے ۔۔۔۔ایک اور بات پوچھوں ؟جی ۔۔۔کبھی کوئی آپ کے لئے جنّت کے پتے توڑ کر لایا ہے؟؟ہم دنیا والوں نے جنّتیں کہاں دیکھی ہیں M ahmed! اس کے چہرے پر تلخی تھی۔۔تب ہی تو ہم جانتے نہیں کے جنّت کے پتے کیسے دکھتے ہیں کبھی کوئی آپ کو لادے تو انہیں تھام لینا!۔۔وہ آپ کو رسوا نہیں ہونے دیں گیں۔۔********* احمد اس سے سوال پر سوال کر رہا تھا "ایک منٹ ایک آخری سوال کرنا ہے مجھے"وو اٹھتے اٹھتے بیٹھ گئی "جی بولئے """آپ مجھ سے شادی کریں گی""اسے زور کا dhachka لگا وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے دیوار کو دیکھنے لگی ۔۔بولئے مس حیا ۔۔۔اسے غصّہ آیا۔۔۔۔مس حیا نہیں مسسز حیا۔۔۔ ایک ایک لفظ چبا چبا کر بولتی وہ اٹھی فون ابھی تک ہاتھ مے تھا ۔۔۔کیا مطلب۔۔ وہ چونکا تھا ۔۔۔افسوس کے میرے بارے میں اتنی معلومات رکھنے کے باوجود آپ میرے بچپن میں ہونے والے نکاح سے بےخبر ہیں وہ نکاح جو میرے کزن جہاں سکندر سے میرے بچپن میں ہی پڑھا دیا گیا تھا ۔۔میں شادی شدہ ہوں اور میرے حسبند ترکی میں رهتے ہیں۔۔۔اہ آپ کی وہ فیملی جو کبھی پاکستان آئ ہی نہیں ۔۔۔۔جانتا ہوں آپ کی پھپھو کا خاندان جو شاید ذلّت اور شرمندگی کے مارے اب شاید کبھی ادھر کا رخ نہیں کرے گا۔۔۔آخر کارنامہ بھی تو بہت شرمناک انجام دیا تھا نا۔۔ اب ان کا انتظار کر رہی ہیں آپ۔۔۔ارے بچپن کا نکاح تو کورٹ کی ایک ہی پیشی میں ختم ہو جاتا ہے ۔شٹ اپ جست شٹ اپ M احمد وہ چللائی ۔۔آپ کی ہممت بھی کیسے ہوئی یہ بات کرنے کی ارے بھار میں جاؤ آپ اور آپ کی وہ ویڈیو ۔۔آپ بھلے اسے ٹی وی پر چلا دو مجھے پرواہ نہیں ۔۔میرا ایک کام کرنے کی اتنی قیمت وصولنا چاھتے ہیں آپ۔۔۔۔رہی بات جہاں سکندر کی تو وہ میرا شوہر ہے مجھے بہت محبّت ہے اس سے ۔۔اس کے علاوہ میری زندگی میں کوئی آ نہیں سکتا سمجھے آپ۔۔۔۔رسیور واپس رکھنے سے قبل اس نے سوگواریت بھرا قہقہ سنا تھا ۔۔پیر پٹخ کر وہ دروازے کی جانب بڑھی اسی لمھے دروازہ کھول کر ایک سپاہی اندر آیا ۔۔۔جو اسے اندر بٹھا کر گیا تھا ؛اسے فورن اشارہ کر دیا گیا تھا ۔۔ملاقات ختم ہو چکی تھی اور حیا کے لیے وہ بیحد تلخ ثابت ہوئی تھی ۔۔۔۔۔جس لمحے وہ پرانی کار کی پچھلی سیٹ پر بیٹھی سپاہی نے اسے سرخ گلابوں والا بو کے اسے دیا ۔۔۔مگر ان کے ساتھ کوئی خط نا تھا مگر پھر بھی اسے یقین ہو گیا وو گمنام خطوط بھیجنے والا بھی احمد ہے تھا۔۔۔۔وو اسے بہت پہلے سے جانتا تھا۔۔۔"یہ جا کر اپنے میجر احمد کے منہ پر مار دو"۔۔۔۔اس نے بو کے سپاہی کے بازوں پر پھینکا اور دروازہ بند کر لیا گاڑی زن سے آگے بڑھ گئی۔۔۔***********حیا۔۔۔حیا۔۔۔شام میں ارم ہوئی بھاگتی ہوئی آئ خوشی اس کے انگ انگ سے پھوٹ رہی تھی ۔۔" وہ ویڈیو اس ویب سائٹ سے ریموو ہو گئی ہے " اس نے حیا کو بتایا ۔۔۔۔مگر کیسے ہوا یہ سب۔۔۔"اس ویب سائٹ والے کو خوف خدا آ گیا ہو گیا مجھے کیا پتا" وہ لاپرواہی سے انجان بن گئی۔۔۔۔ہوں شاید؛ مگر اچھا ہی ہوا اور ہاں تمہاری ترکی کی فلائٹ کب ہے ۔۔۔۔"پتا نہیں پہلے پاسپورٹ تو ملے پھر ہی ویزا ملے گا۔۔"اس کو ارم کی مجودگی سے کوفت ہونے لگی تھی ۔۔۔ارم جلدی ہی اٹھ کر چلی گئی وہ پھر سے سوچوں مے گم گئی۔۔میجر احمد۔۔، اس کا آدھا جھلسا چہرہ۔۔۔۔سامنے نا آنا۔۔۔ اور اس کی وہ اجیب فلسفیانہ باتیں ۔۔۔جننت کا تذکرہ۔۔۔۔۔اور پھر مجھ سے شادی کآ سوال۔۔۔۔ اہ میرے خدایا ۔۔۔۔!" آپ کی پھپھو کا خاندان جو ذلّت اور شرمندگی کے مارے اب شاید ادھر کا رخ کبھی نہیں کرے گا"۔۔۔۔کیوں کہی تھی اس نے یہ بات۔۔۔۔۔اور وہ خطوط وہ گلدستے وہ بھی اسی نے بیجھے تھے اس کو سپانجی جانے کا کیسے علم ہوا۔۔۔۔یقیناً وہ اس کی کال ٹیپ کر رہا تھا جب زارا نے اس کو بتایا تھا ۔۔۔ اور وہ اس وقت گھر کے باہر ہی ہو گا مگر گلدستہ تو کچن کی ٹیبل پر رکھا تھا ۔۔۔تو کیا وو ان کے گھر بھی داخل ہو سکتا تھا اور اس کے کمرے میں بھی۔۔۔۔۔خوف کی لہر نے اسے اپنے حصار میں لے لیا وہ کر دروازہ بند کرنے ہی لگی تھی کے فاطمہ بیگم اندر آئ "حیا۔۔تمہارے ابّا تمہیں بلا رہے ہیں"اوکے آ رہی ہوں ۔۔۔ابّا۔۔۔اس نے ان کے کمرے کا دروازہ knock کیا ۔۔۔آ جاؤ حیا۔۔۔سامنے سلیمان صاحب بیٹھے تھے سوچون مے گم اور ایک طرف فاطمہ بیگم مجود تھی ۔۔۔۔آپ نے بلایا تھا ابّا ۔۔۔ہاں اؤ بیٹھو ۔۔۔میں نے ایک فیصلہ کیا ہے "اب تمہیں کورٹ سے سبین کے بیٹے سے طلاق لے لینی چاہیے ۔۔۔کوئی اس کے منہ پر چابک دے مارتا تو شاید تب بھی اسے اتنا دکھ نا ہوتا جتنا اب ہوا تھا ۔۔۔میں نے وکیل سے بات کر لی ہے عدالت کی ایک پیشی سے طلاق مل جائے گی اور جتنے بےزار وہ ہم سے ہیں انھیں اس بات سے بہت خوشی ہو گی ۔۔" ابّا کیا یہ واحد حل ہے "بہت دیر بعد وو بولی ۔۔کیا اس کے علاوہ بھی کوئی حل ہے کس قیمت پر ہم یہ رشتہ نبھائیں جب وہ کوئی امید ہی نہیں دلاتے ۔۔۔۔اگر آپ کو واقعی لگتا ہے آپ میرا گھر بسانا چاھتے ہیں تو آپ مجھے ترکی جانے دیں وہاں جا کر میں اس کو تلاش کروں گی ۔۔۔۔اور پوچھوں گی اگر وہ گھر بنانا چاہتا ہے تو ٹھیک ہے۔۔۔۔ ورنہ مجھے طلاق دے دے۔۔۔۔اگر نہیں دیتا تو مے کورٹ چلی جاؤں گی ۔۔۔مگر مجھے ایک آخری کوشش کر لینے دیں پلیز ۔۔۔وہ خاموش ہو گے شاید قائل ہو گے تھے ۔۔۔" ابّا آپ مجھے پانچ ماہ کا وقت دیں " اس نے کہا اور کمرے سے باہر چلی گئی ۔۔۔۔***********وہ خطبی لڑکی اسے کلاس کے باہر مل گئی تھی جب اس نے حیا کو روک لیا سنیئے مس سلیمان ۔۔حیا نے کوفت سے پلٹ کر دیکھا ۔۔۔جہاں خدیجہ رانا کھڑی تھی ۔۔ڈی جے ۔۔جسے ڈی۔۔جے صرف اس کے فرینڈز۔ کہا کرتے تھے وہ اس کی فرینڈ نا تھی اور نا ہی بننا چاہتی تھی ۔۔۔جی خدیجہ۔۔ اس نے ذرا مرووت سے جواب دیا ۔۔۔آپ نے ویزا کے لیے اپپلائی کر دیا ۔۔۔میڈم فرخندہ نے کہا ہے ہم دونو کو جلد از جلد ویزا کے لئے اپپلائی کرنا چاہیے۔۔۔ہمارے پاس بس پندرہ دن ہیں اور ترکی کا ویزا 15 دن میں کبھی نہیں لگا کرتا ۔۔وہ تیز تیز بولے جا رہی تھی اس کی بات کچھ ایسی تھی کے حیا کو سنجیدہ ہونا پرآ۔۔اہ تو اب ہمے کیا کرنا چاہے ۔۔"کل ترکش embaisi جانا ہو گا ان کا عجیب سا rule ہے کے ہر روز سب سے پہلے انے والے 15 امید واروں کا ہی انٹر ویو ہوتا ہے ۔۔۔آپ مجھے اپنا نمبر لکھوا دیں ۔۔۔۔اس نے بے دلی سے اپنا نمبر لکھوا دیا ۔۔۔۔خدیجہ اسے اپنے فون میں نوٹ کرتی گئی۔۔۔ٹھیک ہے صبح 6 بجے آپ diplomatic پہنچ جائے گا میں ووہیں ہوں گی۔۔۔اس نے اچھا کہ کر جان چھڑانے والے انداز مے سر ہلا دیا۔۔۔اور پلیز دیر مت کرنا یہ نا ہو کے آپ کی وجہ سے میرا ویزا بھی رہ جائے اآخر ۔۔۔وہ بھی خدیجہ رانا ہے۔۔۔کیا compny ملی ہے مجھے اف۔۔۔ وہ پیر پٹخ کر آگے بڑھ گئی۔۔۔۔*******سیاہ جیکٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے وہ چل رہی تھی ۔۔اماں اور ابّا کی کہی گئی باتیں دل و دماغ میں گھوم رہی تھی ۔۔وہ سیٹی کی تیز آواز تھی جس نے اسے خیالوں کے ہجوم سے نکالا۔۔اس نے چونک کر سر اٹھایا ۔۔وہ تین لرکے تھے مختلف سمتوں سے اس کی طرف آ رہے تھے جگہ قدرے سنسان تھی۔۔خالی چبوترہ تاریکی میں دڈوبا تھا ۔۔روشن دکانیں دور تھی ۔۔۔اس کا دل دھک سے رہ گیا وہ تیزی سے پلتی ادھر سے بھی ان کا کوئی چوتھا آ رہا تھا۔۔ان میں سے ایک لڑکے نے اس کو کلائی سے تھام کر اپنی طرف کھینچا تھا۔۔ابھی اس کے لبوں سے چینخ بھی نہیں نکلی تھی ۔۔آگے برھننے والآ خود بوکھلا کر پیچھے ہٹا تھا۔۔ٹن کی زور ڈر آواز کے ساتھ کسی نے اس لرکے کے سر پر کچھ مارا تھا۔۔۔"مرن جوگو ۔۔۔۔۔ باجی کو تنگ کرتے ہو ۔۔۔چھوڑو ں گی نہیں میں تمہیں ۔۔۔۔"وہ اونچی لمبی ڈولی ہاتھ میں پکرے فرائی پین کو گھما گھما کر مار رہی تھی۔۔۔۔حیا حکا بککا رہ گئی۔۔جس کو لگا تھا۔ وہ سر پکڑے ھوے بھگا باکی بھی پیچھے بھاگے۔۔۔وہ تیز تیز قدموں سے چبوترے کی جانب برھننے لگی۔۔۔" ارے باجی گل تے سنو"وہ اس کے پیچھے بھاگا۔۔حیا چلتے چلتے رکی ۔۔اور پلٹ کر اسے دیکھا۔۔کیا۔۔ہے۔۔ہاۓ ربّا۔۔۔ باجی تسی کینے سونے ہو ۔۔۔۔وہ چپ چاپ اسے دیکھنے لگی۔۔"شکریہ ہی بول دو باجی۔"شکریہ ۔۔اور کچھ۔"تسی تے ناراض لگ دے اہ جی۔۔ڈولی۔۔تم کیوں ہر جگہ میرے پیچھے آ جاتے ہو۔۔۔۔ہاں تے تہاڈی ہمیشہ مدد کیتی اے ۔۔۔تمہیں کس نے کہا ہے میری مدد کرنے کو۔۔"کس نے تمہیں میرے پیچھے لگایا ہے ۔۔بولو جواب دو ۔۔"ڈولی کا منہ آدھا کھلآ رہ گیا لینز لگی آنکھوں میں حیرت اور پھر آنسو تیرنے لگے۔۔۔۔کسی نے نہیں جی بری دیر بعد وہ دکھ سے بولآ "مجھے آپ اچھی لگتی ہو جی "اس لئے آپ کا خیال رکھتی ہوں آپ کو برا لگتا ہے تو نہیں آؤں گی۔۔اسے لمھے حیا کا فون بجا ۔۔۔اس نے چونک کر ہاتھ میں پکرے موبائل کو دیکھا اس پر private number calling آ رہآ تھا۔۔جاری ہے۔۔

mygbakiyem

I try to read a message of peace will be good, God willing, I will get some useful articles and poetry about qraan ahadees Also of interest...