Message of Peace Friday 9 August 2024 Top websites I try to read a message of peace will be good, God willing, I will get some useful articles and poetry about qraan ahadees
Showing posts with label Janat Ke Patte urdu Noval Part. Show all posts
Showing posts with label Janat Ke Patte urdu Noval Part. Show all posts
Tuesday, 16 July 2024
Janat ke pate full noval
I try to read a message of peace will be good, God willing, I will get some useful articles and poetry about qraan ahadees Also of interest to women and children will be provided
Monday, 25 March 2024
Arehman Allah names
I try to read a message of peace will be good, God willing, I will get some useful articles and poetry about qraan ahadees Also of interest to women and children will be provided
Monday, 1 January 2024
free earnmoney
I try to read a message of peace will be good, God willing, I will get some useful articles and poetry about qraan ahadees Also of interest to women and children will be provided
- dashboardDashboard
- Referrals5 Level
- Referral ContestSuper
- Shortlink ContestSuper
Finance Section
- Deposit
- Withdraw
Earning Section
- Daily Coupon
- Offers & Surveys$1000+
- Quiz
- Faucet+500%
- Unlimited Faucet+1000%
- Shortlink Wall95
- mouseIframe Ads
- mouseWindow Ads
- Challenges11
- Robo Faucet
- Volts Mining
Advertise Section
- Buy Ads
User Section
- account_boxChange Password
- Account History
- Logout
If you use Adblock the website will not work properly. So Disable adblock please. Disable Now
215,301,000.00
CoinsAccount Balance
0
CoinsDeposit Balance
0
BoltEnergy Left
Referral Count- 0
You Referral Link is- https://kiddyearner.com/?r=42960
Wednesday, 1 March 2023
Monday, 9 January 2023
Friday, 3 July 2020
ناول جنت کے پتے قسط 5
ناول = جنت کےپتے
تحریر= نمرہ احمد قسط نمبر . 5
ناول = جنت کےپتے
تحریر= نمرہ احمد
قسط نمبر 5
خیر ویزہ کل تک سٹیمپ ہوجائے گا آپ دونو میں سے کوئ ایک آکر شام 4بجے پاسپورٹ پک کر لے انکے دل میں بے حد خوشی ہوئ....
آئ ایم سوری حیا" آئ ایم سوری خدیجہ بیک وقت دونو کے منہ سے نکلا پھر وہ ہنستے ہوئے ایک دوسرے کے گلے لگ گئ باآلاخراسے یقین آگیا تھا کے وہ ترکی جارہی ہے اور پورے پانچ ماہ کے لئے جہاں وہ رہتاجو ہر وقت اسکے دل کے پاس رہتا ہے....
ویلکم می اوسبانجی....
********** عمیر راجپوت********
بھائ تو چلے گئے تھے مجے ڈراپ کر کے میں آپکے سیل سے انکو کال کر لوں وہ مجھے پک کر لیں گے "نو پرابلم میں ڈراپ کر دوں گی خدیجہ آپ مجے ڈی جے اور تم کیہ سکتی ہے اس نے گاڑی کا لاک کھولا " مجے سپر جناح جانا تھا یوں نہ کریں کے کچھ شاپنگ کر لیں؟ آپ نے کچھ تو لینا ہوگا خدیجہ؟ سوئیٹرز لینے ہیں وہاں بہت سردی ہے .. پھر وہیں چلتے ہیں.......
سائینوشور کے بلمقابل چبوترہ خالی تھا مگر دن میں اتنا ویران نہیں لگ رہا تھا جتنا رات کو تھا اور وہ آواز وہ سر جھٹک کر آگے بڑھ گئ.....
اوہ نیڈل امیبریشنز پہ سیل لگی ہے . آئیں کچھ دیکھ لیتے ہیں وہ کافی دنوں سے سوچ رہی تھی یہاں سے کوئ اچھا شرٹ پیس لے آئے اورآج آج تو سیل بھی لگی تھی ... وہ اور خدیجہ اندر داخل ہوئ شاپ کے اندر وہی مخصوص ماحول تھا ہیٹر کی گرمی اور ہر ترف پھیلے کڑائ والے کپڑے .. ایک سیلز مین دیکھ کر فوراً متوجہ ہوا "جی میم" یہ پنک والا دکھائیں "میم یہ میں سامنے رکھا ہے اس نے بائیں جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا جہاں ایک فیملی پہلے سے کھڑی دیکھ رہی تھی اوہ تھینکس " وہ خوبصورت کڑھائ والا شرٹ کا فرانٹ پیس پھیلا ہوا تھا .....
حیا کے بلکل بائیں جانب ایک نوجوان سر جکائے کھڑا تھا اس کے ساتھ ایک نفیس معمرسی خاتون اور کم عمر لڑکی کھڑی تھی "ممی یہ پنک والا لے لیتے ہیان ثانیا بھابی کا کمپلیکشن فئیر ہی ان پر سوٹ کرے گا کیوں بھائ ؟ وہ اب نوجوان کی رائے مانگ رہی تھی .. حیا ناچاہتے ہوئے بھی اسکی طرف متوجہ ہوئ اسے بس اسی بات کی جلدی تھی کب وہ نوجوان اس کپڑے کو چھوڑے اور کب وہ دیکھ پائے حیا اس کے پکڑے کپڑے کو دیکھ رہی تھی جب اس کی نگاہیں کپڑے سے اس شخص کی کلائ پر پڑی وہ ایک دم چونکی اس کی کلائ پر کانٹے کا سرخ گلابی نشان تھا جیسے جلا ہو ..........
وہ درازقد تھا رنگ صاف چہرے پے سنجییدگی اور آنکھوں پر فریم گلاسز تھے وہ جیکٹ میں ملبوس اچھا خاصا سمارٹ تھا ...
پھر اسکی بہن نے اسکے ہاتھ سے آرام سے کپڑا کھینچا اب اسکی انگلیاں نظر آرہی تھی جن کے اوپر والے پوروں میں قدرتی لکیر پڑی تھی اسے بے اختیار شیشے میں آئ انگلیاں یاد آگئ ....
بہت احتیات سے اس نے اِدھر آدھر دیکھا آس پاس کوئ اس کے جاننے والا نہیں تھا ... "پنکی" اس نے کھڑے نوجوان کی طرف چہرہ کر کے بلند آواز سے پکارا وہ اپنی بہن کی سمت دیکھ رہا تھا اس نے شاید سنا نہیں اس کی بہن حیا کواپنی طرف دیکھتا پا کےبولتے بولتے رکی اس نے پنکی زرا زوور سے پکارا .... کم عمرلڑکی نے اس دیکھا اس کی ماں بھی اسی طرف دیکھنے لگی تھی ان دونو کا یوں حیا کو دیکھنے کی وجہ سے نوجوان نے بھی گردن موڑی حیا نے دیکھا اس نوجوان کا چہرہ جھلسا ہوا تھا جھلسنے کے نشان بہت گہرےنا تھے ......
پنکی ڈولی کہاں ہے ؟ وہ اس نوجوان کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے تیکھے انداز میں بولی وہ الجھ سا گیا "سوری"؟ میں نے پوچھا ڈولی کہاں ہے......
کون میں سمجھا نہیں وہ دھیمے اور الجے ہوئے لہجے میں بولا.. اگر آپکے دماغ پر چوٹ لگنے سے یاداشت کھوگئ ہے تو میں آپکو یاد کروا دیتی ہوں .. ڈولی وہ آپکا خواجہ سرادوست جس کے ساتھ آپ روز خواجہ سرابنے سڑک پربھیک مانگ رہے تھے پنکی نام بتایا تھا ناآپ نے اسکی آنکھوں میں غصہ درآیا وہ زرا برداشت کرکے بولا "میڈم" آپکو غلط فہمی ہوئ ہے میں آپکو جانتا تک نہیں ...
مگر میں آپکو بہت اچھے سے جانتی ہوں یہ آپکی انگلیوں کےنشان میری گاڑی کے شیشے میں پھنسنے کے باعث ہی آئے تھے مجے یاد ہےمسٹر"
آپ کون ہیں اورپرابلم کیا ہے ؟ آپکو وہ لڑکی مزید نہیں برداشت کر سکی تھی...
میں وہ ہوں جس نے آپکے بھائ کو خواجہ سرا بنے دیکھا تھا..
اٹس انف" اس نوجوان نے غصہ سے کھڑ کا. میں شرافت سے آپکی بکواس سن رہا ہوں اور آپ بے لگام ہوتی جا رہی ہیں اس سے آگے آپ نے کچھ فضول بولا تو اچھا نہیں ہوگا ...
اتنی ہی شرافت ہے آپ میں تو خواجہ سراکیوں بنے تھے.. کسی نےاس کے عقب میں کہا تو وہ چونکی . خدیجہ برابر آن کھڑی ہوئ تھی حیا کو ڈھارس سی ملی ..
آپکا دماغ خراب ہے اپنی بہن کوسمجھائیں میرے بھائ سےتعارف کااچھابہانہ ڈھونڈا انہوں نے لڑکی بھڑک کربولی... شاپ میں سب لوگ چھوڑ کر انکو دیکھ رہے تھے...
تعارف مافٹ خدیجہ نے جوباً بولا .. آپکے بھائ کو خواجہ سرا بنا میں نے بھی دیکھا تھا میں دس اور آدمی لاسکتی ہوں جواس بات کی گواہی دیں گے....
عجیب خاتون ہیں آپ خوامخوا تنگ کیے جا رہی ہیں.. "سر,میڈم" شاپ مینجر تیزی سے انکی طرف آیا تھا ادھر تماشا نہ کریں دوسرے کسٹمر ڈسٹرب ہورہیے ہیں ... اوہ میجرصاحب... اب اس نے نوجوان کا چہرہ دیکھا اور حیرت سےبولا .. بہت معزرت سر پھر وہ حیا کی طرف مڑا آپ پلیز شور نہ کریں اگر آپ خریداری نہیں کرنی تو جاسکتی ہیں....
آپ ہوتے کون ہیں مجھے شاپ سے نکالنے والے...
احمدبھائ چلو ہم ہی چلے جاتے ہیں ان کا تودماغ خراب ہے لڑکی نے خفگی سے کہا اورپلٹی...
وہ نوجوان ایک تنفر بھری نگاہ اس پر ڈال کر دروازے کی طرف بڑھ گیا....
توبہ ہےآج کل کی لڑکیوں کی اسکی ماں نے ناپسندیدگی سے کہا ... وہ لب بینچے کھڑی انہیں جاتے دیکھے گئ... اسے اس شخص کےمیجر احمد ہونے کا شبہ نہیں رہ گیا تھا ....
حیا اس سے پہلے کہ یہ مینجر ہمیں دکھے دے کر نکالے ہم بھی کھسک جائیں ڈی جے نے کہا پھر وہ آگے بڑھ گئ ...
باہر اس نے کھلے میں آکر کہا تھینک یو ڈی جے پہلی بار اس نے خدیجہ کواس کے معروف نام سے پکارا تھا ....ڈی جےبے ساختہ ہنس دی مجھے پتا تھا آپ جھوٹ نہیں بولتی آپ نےواقعی دہکھا ہوگا جو کیہ رہی تھی .. مگر ڈی جےمیں نے اسے واقعی جواجہ سرا بنے دیکھا تھا "حیا" آپ نے اسےبس خواجہ سرابنے دیکھاتھا؟ ہوسکتا وہ صرف ایڈوانچر کے لیے ایسا بنا ہوں "پتا نہیں" چلو چلتے ہیں وہ آگے بڑہی....
جاری ہے
Tuesday, 30 June 2020
جنت کے پتے ناول پارٹ 4
I try to read a message of peace will be good, God willing, I will get some useful articles and poetry about qraan ahadees Also of interest to women and children will be provided
جنت کے پتے
از نمرہ احمد
ناول؛ جنت کے پتے
از-- نمرہ احمد
قسط 4
وہ معزرت خواہانہ مسکراتی ہوئ گیٹ کی جانب بڑھ گئی۔ باہر آ کر اس نے بے اختیار آنکھوں کے بھیگے ٗگوشے صاف کیے اور ایک نظر ان کو پلٹ کر دیکھا، پھر سر جھٹک کر آگے بڑھ گئی۔
ان کے گھر کے ساتھ خالی پلاٹ میں شامیانے لگا کر مہندی کا فنکشن ارینج کیا گیا تھا۔ مہندیاں دونوں گھروں کی الگ الگ تھیں۔
گیندے کے پھولوں اور موتیے کی لڑیوں سے ہر کونا سجا تھا۔ تقریب سیگریگیٹڈ تھی۔ مرد الگ، عورتیں الگ۔ ہاں عورتوں کی طرف خاندان کے مردوں کا آنا جانا لگا تھا۔مریم بھی سلور کامدار لہنگے میں ادھر ادھر گھوم رہی تھی۔ وہاں ڈی جے ، مووی والے اور ریفریشمنٹ سرو کرتے باہر کے مرد تھے مگر آج تو شادی کا ایک فنکشن تھا، پھر سر ڈھکنے کی پابندی کیسے ہوتی؟ شادیوں پہ تو خیر ہوتی ہے نا۔
”حیا! ڈانس شروع کریں؟” ارم اپنا لہنگا سنبھالتی ہوئی اس کے پاس آئ۔
”ہاں! ٹھیک ہے ،تم گانا لگواؤ اور٠٠٠٠٠٠٠٠ یہ کون ہے؟“ سامنے والی کرسیوں کی قطار کے ساتھ کھڑی ایک لڑکی کرسی پہ بیٹھی خاتوں سے جھک کر مل رہی تھی۔ اس نے سیاہ عبایا اور اوپر اسٹول لے رکھی تھی۔ عجیب بات تھی کہ اس لڑکی نے انگلیوں سے نقاب تھام رکھا تھا۔
”کون”؟ ارم نے پلٹ کردیکھا، پھر گہری سانس لے کر مڑی ۔ ”یہ ایلین ہیں”۔
”کون؟” حیا نے حیرت سے کہا۔
”ایلین، ارے شہلا بھابھی ہیں یہ۔ پوری دنیا سے الگ ان کی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد ہوتی ہے۔ بس توجہ کھینچنے کے لیے فنکشنز پر بھی عبایا، نقاب میں ملتی ہیں۔ اب پوچھو، بھلا عورتوں کے فنکشن میں کس سے پردہ کر رہی ہیں؟”
”ہاں، واقعی، عجیب ہیں یہ بھی!” اس نے شانے اچکائے۔ وہ ان کے ایک سیکنڈ کزن کی وائف تھیں اور سال بھر پہلے ہی شادی ہوئی تھی۔
ڈی جے نےگانا سیٹ کر دیا۔
انہوں نے مووی والے کو ڈانس کی مووی بنانے سے منع کر دیا اور پھر اپنا مہارت سے تیار کردہ رقص شروع کیا۔ ایک سنہری پری لگ رہی تھی تو دوسری چاندی کی۔ جب پاؤں دکھ گئے اور خوب تالیاں بجیں تو وہاں ہنستے ہوئے کرسیوں کی طرف آئیں۔
"السلام علیکم شہلابھابھی!" وہ لڑکی بھی اسی میز پر موجود تھی۔ ارم نے فوراً سلام کیا، حیا نے بھی پیروی کی۔
”وعلیکم السلام٫ کیسی ہو تم دونوں؟“ وہ مسکرا کر خوش دلی سے ملی۔ ایک ہاتھ کی دو انگلیوں سے اس نے ابھی تک سیاہ نقاب تھام رکھا تھا۔
بالکل ٹھیک٫ شہلا بھابھی! نقاب اتار دیں٫ ادھر کن ہے؟“
شہلا نے جواباً مسکرا کر سر ہلایا، مگر نقاب اسی طرح پکڑے رکھا۔
” ما شاءاللہ تم دونوں بہت پیاری لگ رہی ہو“۔
وہ بات کرتے کرتے ذرا سی ترچھی ہوگئ۔ حیا نے حیرت سےدیکھا۔ شاید اس طرف مووی والا فلم بنا رہا تھا، اسی لیے۔
عجیب عورت ہے، اتنی بھی کیا بے اعتباری، ہماری فیملی مووی ہے، ہم کون سا باہر کسی کو دکھائیں گے۔حیا بڑبڑائ۔
پھر وہ جلد ہی وہاں سے اٹھ گئ۔ اماں جانے کدھر تھیں۔ کس سے پوچھے سبین پھوپھو آئی ہیں ی نہیں۔ کافی دیر اسی شش و پنچ میں مبتلا رہی، پھر گھر چلی آئی اور ٹی وی لاؤنج میں فون کے ساتھ رکھی ڈائری اٹھائی۔ تھکن کی وجہ سے دھم سے صوفے پر گری ۔ ار سبین پھوپھو کا نمبر تلاش کرنے لی۔ اس نے کبھی ان کو یوں فون نہیں کیا تھا، مگر آج دل کے ہاتھوں ہار گئی تھی۔ ترکی کا وہ نمبر مل ہی گیا۔ اس نے ریسیور اٹھایا اور نمبر ڈائل کیا۔ گھنٹی جانے لگی تھی۔ اس کے دل کی دھڑکن تیز ہوگئی۔ پانچویں گھنٹی پر فون اٹھا لیا گیا۔
ہیلو“۔
بھاری مردانہ آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی۔
********
”ہیلو“۔ بھاری مردانہ آواز اس سے ٹکرائی۔
”اسلام علیکم“۔ اس نے خشک لبوں پر زبان پھیری۔
جواباً وہ کسی انجان زبان میں کچھ بولا۔
”میں پاکستان سے بات کر رہی ہوں“، گڑبڑا کر انگریزی میں بتانے لگی۔
پاکستان سے کون؟ اب کے وہ انگریزی میں پوچھ رہا تھا۔
اس کی آنکھوں میں پانی بھرنے لگا۔
میں سبین سکندر کی بھتیجی ہوں۔ پلیز ان کو فون دے دیں۔
وہ تو جواہر گئی ہیں، کوئی میسج ہے تو بتا دیں۔ وہ مصروف سے انداز میں کہہ رہا تھا۔ اب یہ جواہر کیا تھا، اسے کچھ اندازہ نہ تھا۔
وہ۔۔۔۔۔ وہ سبین پھوپھو نے پاکستان نہیں آنا کیا داور بھائی کی شادی پر؟
نہیں وہ بزی ہیں۔ شاید وہ فون رکھنے ہی لگا تھا کہ وہ کہہ اٹھی۔
آپ۔۔۔۔۔۔ آپ کون؟
ان کا بیٹا۔۔۔۔۔۔۔ جہاں! کھٹ سے فون رکھ دیا گیا۔
اس نے بھیگی آنکھوں سے ریسیور کو دیکھا اور پھر زور سے کریڈل پہ پٹخا۔ آنسو صاف کیے اور اٹھ کر باہر آئی تو گیٹ کی طرف سے ظفر چلا آ رہاتھا۔ اس کے ہاتھ میں سفید ادھ کھلے گلابوں کا بکے تھا۔
وہ بے اختیار ٹھٹکی کر رکی، پھر لہنگا سنبھالتی، زینے اتر آئی۔
یہ کیا ہے ظفر؟
اوہ تسی اتھے ہو؟ یہ کوریئر والے نے دیا ہے تہاڈے لیے۔ ظفر نے گلدستہ اور ایک بند لفافہ اس کی طرف بڑھایا۔ وہ پچھلے سات سال سے تایا فرقان کا ملازم تھا۔
ٹھیک ہیے تم جاؤ۔اس نے بوکے کو بازو اور سینے کے درمیان پکڑا اور دونوں ہاتھوں سے بند لفافہ کھولنےلگی۔
حسب معمول اس میں سفید سادہ کاغذ تھا، جس کے بالکل درمیان میں اردو میں ایک شطر کھی تھی۔
”اس لڑکی کے نام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو کبھی کسی ان چاہے رشتے کے بننے کے خوف سے روتی ہے تو کبھی کسی بن چکے ان چاہے رشتے کے ٹوٹنے کے خوف سے“۔
وہ سن رہ گئی پھر گبھرا کر ادھر ادھر دیکھا۔
گیٹ کھلا تھا۔ مہندی والی جگہ سے بہت سے لوگ آ جا رہے تھے۔ ایسے میں کیا کوئی ادھر تھا جو بغور مشاہدہ کر رہا تھا؟
اس نے لفافے کو پلٹا۔ کوریئر کی مہر ایک روز قبل کی تھی۔
ابھی دس منٹ قبل وہ جہان کے ساتھ پہلی دفعہ بات کرکے روئی تھی۔
بن چکا ان چاہا رشتہ۔
اور گھنٹہ بھر پہلے ولید اور اس کے والدین سے ملی تھی۔
پان چاہے رشتے کے بننے کے خوف۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کون تھا جو اتنا با خبرتھا؟ ایک دن قبل ہی اسے کیسے علم ہواکہ وہ آج دو دفعہ روئے گی؟
وہ خوف زدہ سی کھڑی بار بار وہ تحریر پڑھے جا رہی تھی۔
جاری ھے
Tags :DilEpisodeFreeislamicJannat_Kay_PattayLoveNamra_AhmedNimra_AhmadPakistaniPDFPiyarsocialSuspenseThrillUrdu
جنت کے پتے
از نمرہ احمد
ناول؛ جنت کے پتے
از-- نمرہ احمد
قسط 4
وہ معزرت خواہانہ مسکراتی ہوئ گیٹ کی جانب بڑھ گئی۔ باہر آ کر اس نے بے اختیار آنکھوں کے بھیگے ٗگوشے صاف کیے اور ایک نظر ان کو پلٹ کر دیکھا، پھر سر جھٹک کر آگے بڑھ گئی۔
ان کے گھر کے ساتھ خالی پلاٹ میں شامیانے لگا کر مہندی کا فنکشن ارینج کیا گیا تھا۔ مہندیاں دونوں گھروں کی الگ الگ تھیں۔
گیندے کے پھولوں اور موتیے کی لڑیوں سے ہر کونا سجا تھا۔ تقریب سیگریگیٹڈ تھی۔ مرد الگ، عورتیں الگ۔ ہاں عورتوں کی طرف خاندان کے مردوں کا آنا جانا لگا تھا۔مریم بھی سلور کامدار لہنگے میں ادھر ادھر گھوم رہی تھی۔ وہاں ڈی جے ، مووی والے اور ریفریشمنٹ سرو کرتے باہر کے مرد تھے مگر آج تو شادی کا ایک فنکشن تھا، پھر سر ڈھکنے کی پابندی کیسے ہوتی؟ شادیوں پہ تو خیر ہوتی ہے نا۔
”حیا! ڈانس شروع کریں؟” ارم اپنا لہنگا سنبھالتی ہوئی اس کے پاس آئ۔
”ہاں! ٹھیک ہے ،تم گانا لگواؤ اور٠٠٠٠٠٠٠٠ یہ کون ہے؟“ سامنے والی کرسیوں کی قطار کے ساتھ کھڑی ایک لڑکی کرسی پہ بیٹھی خاتوں سے جھک کر مل رہی تھی۔ اس نے سیاہ عبایا اور اوپر اسٹول لے رکھی تھی۔ عجیب بات تھی کہ اس لڑکی نے انگلیوں سے نقاب تھام رکھا تھا۔
”کون”؟ ارم نے پلٹ کردیکھا، پھر گہری سانس لے کر مڑی ۔ ”یہ ایلین ہیں”۔
”کون؟” حیا نے حیرت سے کہا۔
”ایلین، ارے شہلا بھابھی ہیں یہ۔ پوری دنیا سے الگ ان کی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد ہوتی ہے۔ بس توجہ کھینچنے کے لیے فنکشنز پر بھی عبایا، نقاب میں ملتی ہیں۔ اب پوچھو، بھلا عورتوں کے فنکشن میں کس سے پردہ کر رہی ہیں؟”
”ہاں، واقعی، عجیب ہیں یہ بھی!” اس نے شانے اچکائے۔ وہ ان کے ایک سیکنڈ کزن کی وائف تھیں اور سال بھر پہلے ہی شادی ہوئی تھی۔
ڈی جے نےگانا سیٹ کر دیا۔
انہوں نے مووی والے کو ڈانس کی مووی بنانے سے منع کر دیا اور پھر اپنا مہارت سے تیار کردہ رقص شروع کیا۔ ایک سنہری پری لگ رہی تھی تو دوسری چاندی کی۔ جب پاؤں دکھ گئے اور خوب تالیاں بجیں تو وہاں ہنستے ہوئے کرسیوں کی طرف آئیں۔
"السلام علیکم شہلابھابھی!" وہ لڑکی بھی اسی میز پر موجود تھی۔ ارم نے فوراً سلام کیا، حیا نے بھی پیروی کی۔
”وعلیکم السلام٫ کیسی ہو تم دونوں؟“ وہ مسکرا کر خوش دلی سے ملی۔ ایک ہاتھ کی دو انگلیوں سے اس نے ابھی تک سیاہ نقاب تھام رکھا تھا۔
بالکل ٹھیک٫ شہلا بھابھی! نقاب اتار دیں٫ ادھر کن ہے؟“
شہلا نے جواباً مسکرا کر سر ہلایا، مگر نقاب اسی طرح پکڑے رکھا۔
” ما شاءاللہ تم دونوں بہت پیاری لگ رہی ہو“۔
وہ بات کرتے کرتے ذرا سی ترچھی ہوگئ۔ حیا نے حیرت سےدیکھا۔ شاید اس طرف مووی والا فلم بنا رہا تھا، اسی لیے۔
عجیب عورت ہے، اتنی بھی کیا بے اعتباری، ہماری فیملی مووی ہے، ہم کون سا باہر کسی کو دکھائیں گے۔حیا بڑبڑائ۔
پھر وہ جلد ہی وہاں سے اٹھ گئ۔ اماں جانے کدھر تھیں۔ کس سے پوچھے سبین پھوپھو آئی ہیں ی نہیں۔ کافی دیر اسی شش و پنچ میں مبتلا رہی، پھر گھر چلی آئی اور ٹی وی لاؤنج میں فون کے ساتھ رکھی ڈائری اٹھائی۔ تھکن کی وجہ سے دھم سے صوفے پر گری ۔ ار سبین پھوپھو کا نمبر تلاش کرنے لی۔ اس نے کبھی ان کو یوں فون نہیں کیا تھا، مگر آج دل کے ہاتھوں ہار گئی تھی۔ ترکی کا وہ نمبر مل ہی گیا۔ اس نے ریسیور اٹھایا اور نمبر ڈائل کیا۔ گھنٹی جانے لگی تھی۔ اس کے دل کی دھڑکن تیز ہوگئی۔ پانچویں گھنٹی پر فون اٹھا لیا گیا۔
ہیلو“۔
بھاری مردانہ آواز اس کی سماعت سے ٹکرائی۔
********
”ہیلو“۔ بھاری مردانہ آواز اس سے ٹکرائی۔
”اسلام علیکم“۔ اس نے خشک لبوں پر زبان پھیری۔
جواباً وہ کسی انجان زبان میں کچھ بولا۔
”میں پاکستان سے بات کر رہی ہوں“، گڑبڑا کر انگریزی میں بتانے لگی۔
پاکستان سے کون؟ اب کے وہ انگریزی میں پوچھ رہا تھا۔
اس کی آنکھوں میں پانی بھرنے لگا۔
میں سبین سکندر کی بھتیجی ہوں۔ پلیز ان کو فون دے دیں۔
وہ تو جواہر گئی ہیں، کوئی میسج ہے تو بتا دیں۔ وہ مصروف سے انداز میں کہہ رہا تھا۔ اب یہ جواہر کیا تھا، اسے کچھ اندازہ نہ تھا۔
وہ۔۔۔۔۔ وہ سبین پھوپھو نے پاکستان نہیں آنا کیا داور بھائی کی شادی پر؟
نہیں وہ بزی ہیں۔ شاید وہ فون رکھنے ہی لگا تھا کہ وہ کہہ اٹھی۔
آپ۔۔۔۔۔۔ آپ کون؟
ان کا بیٹا۔۔۔۔۔۔۔ جہاں! کھٹ سے فون رکھ دیا گیا۔
اس نے بھیگی آنکھوں سے ریسیور کو دیکھا اور پھر زور سے کریڈل پہ پٹخا۔ آنسو صاف کیے اور اٹھ کر باہر آئی تو گیٹ کی طرف سے ظفر چلا آ رہاتھا۔ اس کے ہاتھ میں سفید ادھ کھلے گلابوں کا بکے تھا۔
وہ بے اختیار ٹھٹکی کر رکی، پھر لہنگا سنبھالتی، زینے اتر آئی۔
یہ کیا ہے ظفر؟
اوہ تسی اتھے ہو؟ یہ کوریئر والے نے دیا ہے تہاڈے لیے۔ ظفر نے گلدستہ اور ایک بند لفافہ اس کی طرف بڑھایا۔ وہ پچھلے سات سال سے تایا فرقان کا ملازم تھا۔
ٹھیک ہیے تم جاؤ۔اس نے بوکے کو بازو اور سینے کے درمیان پکڑا اور دونوں ہاتھوں سے بند لفافہ کھولنےلگی۔
حسب معمول اس میں سفید سادہ کاغذ تھا، جس کے بالکل درمیان میں اردو میں ایک شطر کھی تھی۔
”اس لڑکی کے نام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو کبھی کسی ان چاہے رشتے کے بننے کے خوف سے روتی ہے تو کبھی کسی بن چکے ان چاہے رشتے کے ٹوٹنے کے خوف سے“۔
وہ سن رہ گئی پھر گبھرا کر ادھر ادھر دیکھا۔
گیٹ کھلا تھا۔ مہندی والی جگہ سے بہت سے لوگ آ جا رہے تھے۔ ایسے میں کیا کوئی ادھر تھا جو بغور مشاہدہ کر رہا تھا؟
اس نے لفافے کو پلٹا۔ کوریئر کی مہر ایک روز قبل کی تھی۔
ابھی دس منٹ قبل وہ جہان کے ساتھ پہلی دفعہ بات کرکے روئی تھی۔
بن چکا ان چاہا رشتہ۔
اور گھنٹہ بھر پہلے ولید اور اس کے والدین سے ملی تھی۔
پان چاہے رشتے کے بننے کے خوف۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ کون تھا جو اتنا با خبرتھا؟ ایک دن قبل ہی اسے کیسے علم ہواکہ وہ آج دو دفعہ روئے گی؟
وہ خوف زدہ سی کھڑی بار بار وہ تحریر پڑھے جا رہی تھی۔
جاری ھے
Tags :DilEpisodeFreeislamicJannat_Kay_PattayLoveNamra_AhmedNimra_AhmadPakistaniPDFPiyarsocialSuspenseThrillUrdu
Monday, 29 June 2020
جنت کے پتے قسط. 3
I try to read a message of peace will be good, God willing, I will get some useful articles and poetry about qraan ahadees Also of interest to women and children will be provided
ناول:جنت کے پتے
تحریر
نمرہ احمد قسط:3
حیا حیا۔ وو جیسے ہی گھر میں داخل ہوئی سلیمان صاحب تیزی سے اس کی طرف اے ان کے چہرے پر غصّہ تھا تب ہی فون کی گھنٹی بجی یہ ویڈیو تمہاری ہے تم مجرا کرتی ہو روحیل جو صوفہ پر بیٹھا تھا ایک دم اٹھا اور بہت زیادہ cdz اس کی طرف پھینک دی وہاں سب موجود تھے تایا فرقان داور بھائی روحیل اور ایک طرف ارم زمین پر بیٹھی رو رہی تھی دور کہی فون کی گھنٹی بج رہی تھی نہیں نہیں وو ان کو کہنا چاہتی تھی اس کا منہ تو ہلتا تھا پر آواز نہیں نکل رہی تھی وو سب اس کا خون لینے پے تلے تھے سلیمان صاحب آگے برھے اور اس کے منہ پر تھپپر مارا بے حیا بے حیا اسے تھپڑوں سے مارتے حوے سلیمان صاحب کہ رہے تھے ان کے لب حل رہے تھے مگر ان سے آواز ڈولی کی نکل رہی تھی وو سلیمان صاحب نہیں ڈولی بول رہی تھی ڈولی ڈولی پنکی بے حیا پنکی کی انگلیاں فون کی گھنٹی وو ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھیکمرے میں اندھیرا تھا اس نے ہاتھ بڑھا کر ٹیبل لیمپ on کیا سب ٹھیک تھا کسی کو کچھ علم نہیں ہوا تھا وو سب ایک خواب تھا۔۔۔۔اہ خدایا ۔۔۔۔ اس کا سانس تیز تیز چل رہا تھا ۔۔۔دل ویسے ہی دھڑک رہا تھا۔۔۔پورا جسم پسینے سے بھیگا تھا ۔۔۔فون کو مخصوس tone اسی ترھا بج رہی تھی ہاں بس وو گھنٹی خواب نہیں تھی اس نے سائیڈ ٹیبل سے موبائل اٹھایا اور چمکتی سکرین کو دیکھا private نمبر caling.... اور پھر اس نے فون کان سے لگا لیا۔۔میجر احمد میں آپ کے آفس۔ آ کے رپورٹ درج کروانے کے لیے تیار ہوں ۔۔۔۔کل صبح نو بجے گاری بیجھ دیں اوکے اسے فاتحانہ لہجہ سنائی دیا تھا اس نے آہستہ سے فون بند کر دیا کبھی وو کسی لڑکے سے تنہا نہیں ملی تھی مگر نا ملنے کی صورت میں ویڈیو لیک ہو سکتی تھی اس خوفناک خواب نے اسے یہ سب کرنے پر مجبور کیا تھا ۔۔ اسے لگا اب اس کے پاس کوئی چارہ نہیں رہا meijor احمد سے تو وو نپٹ لے گی۔۔************پلے گراؤنڈ کے ساتھ درخت تھا ۔۔وہ اس کے پاس منتظر کھڑی تھی۔۔۔ارم یا زارا اس نے کسی کو نہیں بتایا تھا۔۔یہ خطرہ اس کو اکیلے مول لینا تھا۔۔اس نے گھڑی دیکھی نو بجنے میں ایک منٹ تھا۔اسی پل ایک کار زن سے اس ک سامنے آ کے رکی ۔۔سیاہ پرانی کار اور کسی بت کی طرح سامنے دیکھتا ڈرائیو ر۔۔وہ خاموشی سے آگے بڑھی اور پچھلا دروازہ کھول کر بیٹھ گئی ۔۔اس کے دروازہ بند کرتے ہی ڈرائیور نے گاڑی آگے بڑھا دی۔۔ایک گھنٹے بعد وہ سیف ہاؤس تھی۔۔سفید دیواروں والا خالی کمرہ درمیان میں لکڑی کی کرسی۔۔اور میز جس پر اسے بٹھایا گیا میز پر صرف ٹیلیفون رکھا تھا ۔۔باکی پورا کمرہ خالی تھا ۔۔وہ مضطرب سی گردن گھما کر ادھر ادھر دیکھنے لگی۔۔تین طرف سفید دیواریں تھیں۔۔ان میں سے ایک دیوار میں وہ دروازہ تھا جہاں سے وہ آئ تھی ۔۔البتہ چوتھی دیوار شیشے کی بنی تھی۔دراصل وہ شیشے کی سکرین تھی جو زمین سے لے کر چھتہ تک تھی۔اس نے گور سے سکرین کو دیکھا اس کا شیشہ دھندھلا کر دیا گیا تھا۔۔ٹرن ٹرن ۔۔۔یک دم حیا کے سامنے میز پر رکھا فون بجنے لگا۔۔فون مسلسل بج رہا تھا وہ شخص اسےکال کر رہا تھا؟۔۔اس نے دھرکتے دل سے رسیور اٹھایا اور کان سے لگایا۔۔۔۔"ہیلو" اسلام علیکم مس حیا سلیمان thiz is meijor sulaiman..وہی بھاری خوبصورت سا لہجہ ۔۔وعلیکم سلام وہ فون ہاتھ میں پکڑے سامنے سکرین دیکھ رہی تھی۔جس کے پر آدھے جھلسے چہرے والا offiercer فون تھامے بیٹھا تھا ۔ کیا وہی meijor احمد تھا ؟؟میں امید کرتا ہوں ہم نے آپکو زیادہ تکلیف نہیں دی ۔۔جی ۔ اس کو گھٹن محسوس ہونے لگی تھی ۔۔میرے سامنے لیپ ٹاپ ہے۔مجھے ایک کلک کرنا ہے اور آپ کی ویڈیو صفہ ہستی سے ایسے مٹ جائے گی جیسے کبھی بنی ہی نا ہو ۔۔۔دیوار کے اس پار دھندہلے منظر میں بیٹھے افسر کے سامنے بھی لیپ ٹاپ کھلا پرا تھا ۔تو وہ ۔meijor ahmed تھا ؟وہ سامنے کیوں نی آتا تھا؟"اور شہر کے ایک ایک بندے سے مے یہ ویڈیو نکلوا چکا ہوں۔ بولے حیا کر دوں کلک؟اور۔۔ وہ روپورٹ ؟سمجھئے وہ درج ہو گئی۔ اسے لگا وہ مسکرایا تھا۔مگر۔۔ آپ نے کہا تھا کے مجھے رپورٹ کے لئے ۔۔۔۔۔غلط کہا تھا ۔۔۔ بعض اوقات بھہاننے بنانے پڑتے ہیں تب جب صبر نہیں ہوتا۔۔سمجھیں ؟یہ شخص اتنی عجیب باتیں کیوں کر رہا تھا؟آپ۔۔۔کلک کر دیں۔۔ اس نے کہا وہ شخص جھکا شاید بٹن دبانے اور پھر سیدھا ہو گیا۔۔" کر دیا "اوکے تھنک یو ۔۔M ahmed ۔۔۔۔۔ایک بات پوچھوں۔۔۔؟جی۔۔کیا یہ ویڈیو جلی تھی؟نہیں۔تو اصلی ۔تو آپ اتنی ڈر کیوں رہی تھی ؟ظاہر ہے یہ ہماری فیملی ویڈیو تھی اور شادیوں پر ڈانس کی ویڈیو ہم نہیں بنواتے۔۔۔اوکے ۔۔۔۔ایک اور بات پوچھوں ؟جی ۔۔۔کبھی کوئی آپ کے لئے جنّت کے پتے توڑ کر لایا ہے؟؟ہم دنیا والوں نے جنّتیں کہاں دیکھی ہیں M ahmed! اس کے چہرے پر تلخی تھی۔۔تب ہی تو ہم جانتے نہیں کے جنّت کے پتے کیسے دکھتے ہیں کبھی کوئی آپ کو لادے تو انہیں تھام لینا!۔۔وہ آپ کو رسوا نہیں ہونے دیں گیں۔۔********* احمد اس سے سوال پر سوال کر رہا تھا "ایک منٹ ایک آخری سوال کرنا ہے مجھے"وو اٹھتے اٹھتے بیٹھ گئی "جی بولئے """آپ مجھ سے شادی کریں گی""اسے زور کا dhachka لگا وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے دیوار کو دیکھنے لگی ۔۔بولئے مس حیا ۔۔۔اسے غصّہ آیا۔۔۔۔مس حیا نہیں مسسز حیا۔۔۔ ایک ایک لفظ چبا چبا کر بولتی وہ اٹھی فون ابھی تک ہاتھ مے تھا ۔۔۔کیا مطلب۔۔ وہ چونکا تھا ۔۔۔افسوس کے میرے بارے میں اتنی معلومات رکھنے کے باوجود آپ میرے بچپن میں ہونے والے نکاح سے بےخبر ہیں وہ نکاح جو میرے کزن جہاں سکندر سے میرے بچپن میں ہی پڑھا دیا گیا تھا ۔۔میں شادی شدہ ہوں اور میرے حسبند ترکی میں رهتے ہیں۔۔۔اہ آپ کی وہ فیملی جو کبھی پاکستان آئ ہی نہیں ۔۔۔۔جانتا ہوں آپ کی پھپھو کا خاندان جو شاید ذلّت اور شرمندگی کے مارے اب شاید کبھی ادھر کا رخ نہیں کرے گا۔۔۔آخر کارنامہ بھی تو بہت شرمناک انجام دیا تھا نا۔۔ اب ان کا انتظار کر رہی ہیں آپ۔۔۔ارے بچپن کا نکاح تو کورٹ کی ایک ہی پیشی میں ختم ہو جاتا ہے ۔شٹ اپ جست شٹ اپ M احمد وہ چللائی ۔۔آپ کی ہممت بھی کیسے ہوئی یہ بات کرنے کی ارے بھار میں جاؤ آپ اور آپ کی وہ ویڈیو ۔۔آپ بھلے اسے ٹی وی پر چلا دو مجھے پرواہ نہیں ۔۔میرا ایک کام کرنے کی اتنی قیمت وصولنا چاھتے ہیں آپ۔۔۔۔رہی بات جہاں سکندر کی تو وہ میرا شوہر ہے مجھے بہت محبّت ہے اس سے ۔۔اس کے علاوہ میری زندگی میں کوئی آ نہیں سکتا سمجھے آپ۔۔۔۔رسیور واپس رکھنے سے قبل اس نے سوگواریت بھرا قہقہ سنا تھا ۔۔پیر پٹخ کر وہ دروازے کی جانب بڑھی اسی لمھے دروازہ کھول کر ایک سپاہی اندر آیا ۔۔۔جو اسے اندر بٹھا کر گیا تھا ؛اسے فورن اشارہ کر دیا گیا تھا ۔۔ملاقات ختم ہو چکی تھی اور حیا کے لیے وہ بیحد تلخ ثابت ہوئی تھی ۔۔۔۔۔جس لمحے وہ پرانی کار کی پچھلی سیٹ پر بیٹھی سپاہی نے اسے سرخ گلابوں والا بو کے اسے دیا ۔۔۔مگر ان کے ساتھ کوئی خط نا تھا مگر پھر بھی اسے یقین ہو گیا وو گمنام خطوط بھیجنے والا بھی احمد ہے تھا۔۔۔۔وو اسے بہت پہلے سے جانتا تھا۔۔۔"یہ جا کر اپنے میجر احمد کے منہ پر مار دو"۔۔۔۔اس نے بو کے سپاہی کے بازوں پر پھینکا اور دروازہ بند کر لیا گاڑی زن سے آگے بڑھ گئی۔۔۔***********حیا۔۔۔حیا۔۔۔شام میں ارم ہوئی بھاگتی ہوئی آئ خوشی اس کے انگ انگ سے پھوٹ رہی تھی ۔۔" وہ ویڈیو اس ویب سائٹ سے ریموو ہو گئی ہے " اس نے حیا کو بتایا ۔۔۔۔مگر کیسے ہوا یہ سب۔۔۔"اس ویب سائٹ والے کو خوف خدا آ گیا ہو گیا مجھے کیا پتا" وہ لاپرواہی سے انجان بن گئی۔۔۔۔ہوں شاید؛ مگر اچھا ہی ہوا اور ہاں تمہاری ترکی کی فلائٹ کب ہے ۔۔۔۔"پتا نہیں پہلے پاسپورٹ تو ملے پھر ہی ویزا ملے گا۔۔"اس کو ارم کی مجودگی سے کوفت ہونے لگی تھی ۔۔۔ارم جلدی ہی اٹھ کر چلی گئی وہ پھر سے سوچوں مے گم گئی۔۔میجر احمد۔۔، اس کا آدھا جھلسا چہرہ۔۔۔۔سامنے نا آنا۔۔۔ اور اس کی وہ اجیب فلسفیانہ باتیں ۔۔۔جننت کا تذکرہ۔۔۔۔۔اور پھر مجھ سے شادی کآ سوال۔۔۔۔ اہ میرے خدایا ۔۔۔۔!" آپ کی پھپھو کا خاندان جو ذلّت اور شرمندگی کے مارے اب شاید ادھر کا رخ کبھی نہیں کرے گا"۔۔۔۔کیوں کہی تھی اس نے یہ بات۔۔۔۔۔اور وہ خطوط وہ گلدستے وہ بھی اسی نے بیجھے تھے اس کو سپانجی جانے کا کیسے علم ہوا۔۔۔۔یقیناً وہ اس کی کال ٹیپ کر رہا تھا جب زارا نے اس کو بتایا تھا ۔۔۔ اور وہ اس وقت گھر کے باہر ہی ہو گا مگر گلدستہ تو کچن کی ٹیبل پر رکھا تھا ۔۔۔تو کیا وو ان کے گھر بھی داخل ہو سکتا تھا اور اس کے کمرے میں بھی۔۔۔۔۔خوف کی لہر نے اسے اپنے حصار میں لے لیا وہ کر دروازہ بند کرنے ہی لگی تھی کے فاطمہ بیگم اندر آئ "حیا۔۔تمہارے ابّا تمہیں بلا رہے ہیں"اوکے آ رہی ہوں ۔۔۔ابّا۔۔۔اس نے ان کے کمرے کا دروازہ knock کیا ۔۔۔آ جاؤ حیا۔۔۔سامنے سلیمان صاحب بیٹھے تھے سوچون مے گم اور ایک طرف فاطمہ بیگم مجود تھی ۔۔۔۔آپ نے بلایا تھا ابّا ۔۔۔ہاں اؤ بیٹھو ۔۔۔میں نے ایک فیصلہ کیا ہے "اب تمہیں کورٹ سے سبین کے بیٹے سے طلاق لے لینی چاہیے ۔۔۔کوئی اس کے منہ پر چابک دے مارتا تو شاید تب بھی اسے اتنا دکھ نا ہوتا جتنا اب ہوا تھا ۔۔۔میں نے وکیل سے بات کر لی ہے عدالت کی ایک پیشی سے طلاق مل جائے گی اور جتنے بےزار وہ ہم سے ہیں انھیں اس بات سے بہت خوشی ہو گی ۔۔" ابّا کیا یہ واحد حل ہے "بہت دیر بعد وو بولی ۔۔کیا اس کے علاوہ بھی کوئی حل ہے کس قیمت پر ہم یہ رشتہ نبھائیں جب وہ کوئی امید ہی نہیں دلاتے ۔۔۔۔اگر آپ کو واقعی لگتا ہے آپ میرا گھر بسانا چاھتے ہیں تو آپ مجھے ترکی جانے دیں وہاں جا کر میں اس کو تلاش کروں گی ۔۔۔۔اور پوچھوں گی اگر وہ گھر بنانا چاہتا ہے تو ٹھیک ہے۔۔۔۔ ورنہ مجھے طلاق دے دے۔۔۔۔اگر نہیں دیتا تو مے کورٹ چلی جاؤں گی ۔۔۔مگر مجھے ایک آخری کوشش کر لینے دیں پلیز ۔۔۔وہ خاموش ہو گے شاید قائل ہو گے تھے ۔۔۔" ابّا آپ مجھے پانچ ماہ کا وقت دیں " اس نے کہا اور کمرے سے باہر چلی گئی ۔۔۔۔***********وہ خطبی لڑکی اسے کلاس کے باہر مل گئی تھی جب اس نے حیا کو روک لیا سنیئے مس سلیمان ۔۔حیا نے کوفت سے پلٹ کر دیکھا ۔۔۔جہاں خدیجہ رانا کھڑی تھی ۔۔ڈی جے ۔۔جسے ڈی۔۔جے صرف اس کے فرینڈز۔ کہا کرتے تھے وہ اس کی فرینڈ نا تھی اور نا ہی بننا چاہتی تھی ۔۔۔جی خدیجہ۔۔ اس نے ذرا مرووت سے جواب دیا ۔۔۔آپ نے ویزا کے لیے اپپلائی کر دیا ۔۔۔میڈم فرخندہ نے کہا ہے ہم دونو کو جلد از جلد ویزا کے لئے اپپلائی کرنا چاہیے۔۔۔ہمارے پاس بس پندرہ دن ہیں اور ترکی کا ویزا 15 دن میں کبھی نہیں لگا کرتا ۔۔وہ تیز تیز بولے جا رہی تھی اس کی بات کچھ ایسی تھی کے حیا کو سنجیدہ ہونا پرآ۔۔اہ تو اب ہمے کیا کرنا چاہے ۔۔"کل ترکش embaisi جانا ہو گا ان کا عجیب سا rule ہے کے ہر روز سب سے پہلے انے والے 15 امید واروں کا ہی انٹر ویو ہوتا ہے ۔۔۔آپ مجھے اپنا نمبر لکھوا دیں ۔۔۔۔اس نے بے دلی سے اپنا نمبر لکھوا دیا ۔۔۔۔خدیجہ اسے اپنے فون میں نوٹ کرتی گئی۔۔۔ٹھیک ہے صبح 6 بجے آپ diplomatic پہنچ جائے گا میں ووہیں ہوں گی۔۔۔اس نے اچھا کہ کر جان چھڑانے والے انداز مے سر ہلا دیا۔۔۔اور پلیز دیر مت کرنا یہ نا ہو کے آپ کی وجہ سے میرا ویزا بھی رہ جائے اآخر ۔۔۔وہ بھی خدیجہ رانا ہے۔۔۔کیا compny ملی ہے مجھے اف۔۔۔ وہ پیر پٹخ کر آگے بڑھ گئی۔۔۔۔*******سیاہ جیکٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے وہ چل رہی تھی ۔۔اماں اور ابّا کی کہی گئی باتیں دل و دماغ میں گھوم رہی تھی ۔۔وہ سیٹی کی تیز آواز تھی جس نے اسے خیالوں کے ہجوم سے نکالا۔۔اس نے چونک کر سر اٹھایا ۔۔وہ تین لرکے تھے مختلف سمتوں سے اس کی طرف آ رہے تھے جگہ قدرے سنسان تھی۔۔خالی چبوترہ تاریکی میں دڈوبا تھا ۔۔روشن دکانیں دور تھی ۔۔۔اس کا دل دھک سے رہ گیا وہ تیزی سے پلتی ادھر سے بھی ان کا کوئی چوتھا آ رہا تھا۔۔ان میں سے ایک لڑکے نے اس کو کلائی سے تھام کر اپنی طرف کھینچا تھا۔۔ابھی اس کے لبوں سے چینخ بھی نہیں نکلی تھی ۔۔آگے برھننے والآ خود بوکھلا کر پیچھے ہٹا تھا۔۔ٹن کی زور ڈر آواز کے ساتھ کسی نے اس لرکے کے سر پر کچھ مارا تھا۔۔۔"مرن جوگو ۔۔۔۔۔ باجی کو تنگ کرتے ہو ۔۔۔چھوڑو ں گی نہیں میں تمہیں ۔۔۔۔"وہ اونچی لمبی ڈولی ہاتھ میں پکرے فرائی پین کو گھما گھما کر مار رہی تھی۔۔۔۔حیا حکا بککا رہ گئی۔۔جس کو لگا تھا۔ وہ سر پکڑے ھوے بھگا باکی بھی پیچھے بھاگے۔۔۔وہ تیز تیز قدموں سے چبوترے کی جانب برھننے لگی۔۔۔" ارے باجی گل تے سنو"وہ اس کے پیچھے بھاگا۔۔حیا چلتے چلتے رکی ۔۔اور پلٹ کر اسے دیکھا۔۔کیا۔۔ہے۔۔ہاۓ ربّا۔۔۔ باجی تسی کینے سونے ہو ۔۔۔۔وہ چپ چاپ اسے دیکھنے لگی۔۔"شکریہ ہی بول دو باجی۔"شکریہ ۔۔اور کچھ۔"تسی تے ناراض لگ دے اہ جی۔۔ڈولی۔۔تم کیوں ہر جگہ میرے پیچھے آ جاتے ہو۔۔۔۔ہاں تے تہاڈی ہمیشہ مدد کیتی اے ۔۔۔تمہیں کس نے کہا ہے میری مدد کرنے کو۔۔"کس نے تمہیں میرے پیچھے لگایا ہے ۔۔بولو جواب دو ۔۔"ڈولی کا منہ آدھا کھلآ رہ گیا لینز لگی آنکھوں میں حیرت اور پھر آنسو تیرنے لگے۔۔۔۔کسی نے نہیں جی بری دیر بعد وہ دکھ سے بولآ "مجھے آپ اچھی لگتی ہو جی "اس لئے آپ کا خیال رکھتی ہوں آپ کو برا لگتا ہے تو نہیں آؤں گی۔۔اسے لمھے حیا کا فون بجا ۔۔۔اس نے چونک کر ہاتھ میں پکرے موبائل کو دیکھا اس پر private number calling آ رہآ تھا۔۔جاری ہے۔۔
ناول:جنت کے پتے
تحریر
نمرہ احمد قسط:3
حیا حیا۔ وو جیسے ہی گھر میں داخل ہوئی سلیمان صاحب تیزی سے اس کی طرف اے ان کے چہرے پر غصّہ تھا تب ہی فون کی گھنٹی بجی یہ ویڈیو تمہاری ہے تم مجرا کرتی ہو روحیل جو صوفہ پر بیٹھا تھا ایک دم اٹھا اور بہت زیادہ cdz اس کی طرف پھینک دی وہاں سب موجود تھے تایا فرقان داور بھائی روحیل اور ایک طرف ارم زمین پر بیٹھی رو رہی تھی دور کہی فون کی گھنٹی بج رہی تھی نہیں نہیں وو ان کو کہنا چاہتی تھی اس کا منہ تو ہلتا تھا پر آواز نہیں نکل رہی تھی وو سب اس کا خون لینے پے تلے تھے سلیمان صاحب آگے برھے اور اس کے منہ پر تھپپر مارا بے حیا بے حیا اسے تھپڑوں سے مارتے حوے سلیمان صاحب کہ رہے تھے ان کے لب حل رہے تھے مگر ان سے آواز ڈولی کی نکل رہی تھی وو سلیمان صاحب نہیں ڈولی بول رہی تھی ڈولی ڈولی پنکی بے حیا پنکی کی انگلیاں فون کی گھنٹی وو ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھیکمرے میں اندھیرا تھا اس نے ہاتھ بڑھا کر ٹیبل لیمپ on کیا سب ٹھیک تھا کسی کو کچھ علم نہیں ہوا تھا وو سب ایک خواب تھا۔۔۔۔اہ خدایا ۔۔۔۔ اس کا سانس تیز تیز چل رہا تھا ۔۔۔دل ویسے ہی دھڑک رہا تھا۔۔۔پورا جسم پسینے سے بھیگا تھا ۔۔۔فون کو مخصوس tone اسی ترھا بج رہی تھی ہاں بس وو گھنٹی خواب نہیں تھی اس نے سائیڈ ٹیبل سے موبائل اٹھایا اور چمکتی سکرین کو دیکھا private نمبر caling.... اور پھر اس نے فون کان سے لگا لیا۔۔میجر احمد میں آپ کے آفس۔ آ کے رپورٹ درج کروانے کے لیے تیار ہوں ۔۔۔۔کل صبح نو بجے گاری بیجھ دیں اوکے اسے فاتحانہ لہجہ سنائی دیا تھا اس نے آہستہ سے فون بند کر دیا کبھی وو کسی لڑکے سے تنہا نہیں ملی تھی مگر نا ملنے کی صورت میں ویڈیو لیک ہو سکتی تھی اس خوفناک خواب نے اسے یہ سب کرنے پر مجبور کیا تھا ۔۔ اسے لگا اب اس کے پاس کوئی چارہ نہیں رہا meijor احمد سے تو وو نپٹ لے گی۔۔************پلے گراؤنڈ کے ساتھ درخت تھا ۔۔وہ اس کے پاس منتظر کھڑی تھی۔۔۔ارم یا زارا اس نے کسی کو نہیں بتایا تھا۔۔یہ خطرہ اس کو اکیلے مول لینا تھا۔۔اس نے گھڑی دیکھی نو بجنے میں ایک منٹ تھا۔اسی پل ایک کار زن سے اس ک سامنے آ کے رکی ۔۔سیاہ پرانی کار اور کسی بت کی طرح سامنے دیکھتا ڈرائیو ر۔۔وہ خاموشی سے آگے بڑھی اور پچھلا دروازہ کھول کر بیٹھ گئی ۔۔اس کے دروازہ بند کرتے ہی ڈرائیور نے گاڑی آگے بڑھا دی۔۔ایک گھنٹے بعد وہ سیف ہاؤس تھی۔۔سفید دیواروں والا خالی کمرہ درمیان میں لکڑی کی کرسی۔۔اور میز جس پر اسے بٹھایا گیا میز پر صرف ٹیلیفون رکھا تھا ۔۔باکی پورا کمرہ خالی تھا ۔۔وہ مضطرب سی گردن گھما کر ادھر ادھر دیکھنے لگی۔۔تین طرف سفید دیواریں تھیں۔۔ان میں سے ایک دیوار میں وہ دروازہ تھا جہاں سے وہ آئ تھی ۔۔البتہ چوتھی دیوار شیشے کی بنی تھی۔دراصل وہ شیشے کی سکرین تھی جو زمین سے لے کر چھتہ تک تھی۔اس نے گور سے سکرین کو دیکھا اس کا شیشہ دھندھلا کر دیا گیا تھا۔۔ٹرن ٹرن ۔۔۔یک دم حیا کے سامنے میز پر رکھا فون بجنے لگا۔۔فون مسلسل بج رہا تھا وہ شخص اسےکال کر رہا تھا؟۔۔اس نے دھرکتے دل سے رسیور اٹھایا اور کان سے لگایا۔۔۔۔"ہیلو" اسلام علیکم مس حیا سلیمان thiz is meijor sulaiman..وہی بھاری خوبصورت سا لہجہ ۔۔وعلیکم سلام وہ فون ہاتھ میں پکڑے سامنے سکرین دیکھ رہی تھی۔جس کے پر آدھے جھلسے چہرے والا offiercer فون تھامے بیٹھا تھا ۔ کیا وہی meijor احمد تھا ؟؟میں امید کرتا ہوں ہم نے آپکو زیادہ تکلیف نہیں دی ۔۔جی ۔ اس کو گھٹن محسوس ہونے لگی تھی ۔۔میرے سامنے لیپ ٹاپ ہے۔مجھے ایک کلک کرنا ہے اور آپ کی ویڈیو صفہ ہستی سے ایسے مٹ جائے گی جیسے کبھی بنی ہی نا ہو ۔۔۔دیوار کے اس پار دھندہلے منظر میں بیٹھے افسر کے سامنے بھی لیپ ٹاپ کھلا پرا تھا ۔تو وہ ۔meijor ahmed تھا ؟وہ سامنے کیوں نی آتا تھا؟"اور شہر کے ایک ایک بندے سے مے یہ ویڈیو نکلوا چکا ہوں۔ بولے حیا کر دوں کلک؟اور۔۔ وہ روپورٹ ؟سمجھئے وہ درج ہو گئی۔ اسے لگا وہ مسکرایا تھا۔مگر۔۔ آپ نے کہا تھا کے مجھے رپورٹ کے لئے ۔۔۔۔۔غلط کہا تھا ۔۔۔ بعض اوقات بھہاننے بنانے پڑتے ہیں تب جب صبر نہیں ہوتا۔۔سمجھیں ؟یہ شخص اتنی عجیب باتیں کیوں کر رہا تھا؟آپ۔۔۔کلک کر دیں۔۔ اس نے کہا وہ شخص جھکا شاید بٹن دبانے اور پھر سیدھا ہو گیا۔۔" کر دیا "اوکے تھنک یو ۔۔M ahmed ۔۔۔۔۔ایک بات پوچھوں۔۔۔؟جی۔۔کیا یہ ویڈیو جلی تھی؟نہیں۔تو اصلی ۔تو آپ اتنی ڈر کیوں رہی تھی ؟ظاہر ہے یہ ہماری فیملی ویڈیو تھی اور شادیوں پر ڈانس کی ویڈیو ہم نہیں بنواتے۔۔۔اوکے ۔۔۔۔ایک اور بات پوچھوں ؟جی ۔۔۔کبھی کوئی آپ کے لئے جنّت کے پتے توڑ کر لایا ہے؟؟ہم دنیا والوں نے جنّتیں کہاں دیکھی ہیں M ahmed! اس کے چہرے پر تلخی تھی۔۔تب ہی تو ہم جانتے نہیں کے جنّت کے پتے کیسے دکھتے ہیں کبھی کوئی آپ کو لادے تو انہیں تھام لینا!۔۔وہ آپ کو رسوا نہیں ہونے دیں گیں۔۔********* احمد اس سے سوال پر سوال کر رہا تھا "ایک منٹ ایک آخری سوال کرنا ہے مجھے"وو اٹھتے اٹھتے بیٹھ گئی "جی بولئے """آپ مجھ سے شادی کریں گی""اسے زور کا dhachka لگا وہ پھٹی پھٹی نگاہوں سے دیوار کو دیکھنے لگی ۔۔بولئے مس حیا ۔۔۔اسے غصّہ آیا۔۔۔۔مس حیا نہیں مسسز حیا۔۔۔ ایک ایک لفظ چبا چبا کر بولتی وہ اٹھی فون ابھی تک ہاتھ مے تھا ۔۔۔کیا مطلب۔۔ وہ چونکا تھا ۔۔۔افسوس کے میرے بارے میں اتنی معلومات رکھنے کے باوجود آپ میرے بچپن میں ہونے والے نکاح سے بےخبر ہیں وہ نکاح جو میرے کزن جہاں سکندر سے میرے بچپن میں ہی پڑھا دیا گیا تھا ۔۔میں شادی شدہ ہوں اور میرے حسبند ترکی میں رهتے ہیں۔۔۔اہ آپ کی وہ فیملی جو کبھی پاکستان آئ ہی نہیں ۔۔۔۔جانتا ہوں آپ کی پھپھو کا خاندان جو شاید ذلّت اور شرمندگی کے مارے اب شاید کبھی ادھر کا رخ نہیں کرے گا۔۔۔آخر کارنامہ بھی تو بہت شرمناک انجام دیا تھا نا۔۔ اب ان کا انتظار کر رہی ہیں آپ۔۔۔ارے بچپن کا نکاح تو کورٹ کی ایک ہی پیشی میں ختم ہو جاتا ہے ۔شٹ اپ جست شٹ اپ M احمد وہ چللائی ۔۔آپ کی ہممت بھی کیسے ہوئی یہ بات کرنے کی ارے بھار میں جاؤ آپ اور آپ کی وہ ویڈیو ۔۔آپ بھلے اسے ٹی وی پر چلا دو مجھے پرواہ نہیں ۔۔میرا ایک کام کرنے کی اتنی قیمت وصولنا چاھتے ہیں آپ۔۔۔۔رہی بات جہاں سکندر کی تو وہ میرا شوہر ہے مجھے بہت محبّت ہے اس سے ۔۔اس کے علاوہ میری زندگی میں کوئی آ نہیں سکتا سمجھے آپ۔۔۔۔رسیور واپس رکھنے سے قبل اس نے سوگواریت بھرا قہقہ سنا تھا ۔۔پیر پٹخ کر وہ دروازے کی جانب بڑھی اسی لمھے دروازہ کھول کر ایک سپاہی اندر آیا ۔۔۔جو اسے اندر بٹھا کر گیا تھا ؛اسے فورن اشارہ کر دیا گیا تھا ۔۔ملاقات ختم ہو چکی تھی اور حیا کے لیے وہ بیحد تلخ ثابت ہوئی تھی ۔۔۔۔۔جس لمحے وہ پرانی کار کی پچھلی سیٹ پر بیٹھی سپاہی نے اسے سرخ گلابوں والا بو کے اسے دیا ۔۔۔مگر ان کے ساتھ کوئی خط نا تھا مگر پھر بھی اسے یقین ہو گیا وو گمنام خطوط بھیجنے والا بھی احمد ہے تھا۔۔۔۔وو اسے بہت پہلے سے جانتا تھا۔۔۔"یہ جا کر اپنے میجر احمد کے منہ پر مار دو"۔۔۔۔اس نے بو کے سپاہی کے بازوں پر پھینکا اور دروازہ بند کر لیا گاڑی زن سے آگے بڑھ گئی۔۔۔***********حیا۔۔۔حیا۔۔۔شام میں ارم ہوئی بھاگتی ہوئی آئ خوشی اس کے انگ انگ سے پھوٹ رہی تھی ۔۔" وہ ویڈیو اس ویب سائٹ سے ریموو ہو گئی ہے " اس نے حیا کو بتایا ۔۔۔۔مگر کیسے ہوا یہ سب۔۔۔"اس ویب سائٹ والے کو خوف خدا آ گیا ہو گیا مجھے کیا پتا" وہ لاپرواہی سے انجان بن گئی۔۔۔۔ہوں شاید؛ مگر اچھا ہی ہوا اور ہاں تمہاری ترکی کی فلائٹ کب ہے ۔۔۔۔"پتا نہیں پہلے پاسپورٹ تو ملے پھر ہی ویزا ملے گا۔۔"اس کو ارم کی مجودگی سے کوفت ہونے لگی تھی ۔۔۔ارم جلدی ہی اٹھ کر چلی گئی وہ پھر سے سوچوں مے گم گئی۔۔میجر احمد۔۔، اس کا آدھا جھلسا چہرہ۔۔۔۔سامنے نا آنا۔۔۔ اور اس کی وہ اجیب فلسفیانہ باتیں ۔۔۔جننت کا تذکرہ۔۔۔۔۔اور پھر مجھ سے شادی کآ سوال۔۔۔۔ اہ میرے خدایا ۔۔۔۔!" آپ کی پھپھو کا خاندان جو ذلّت اور شرمندگی کے مارے اب شاید ادھر کا رخ کبھی نہیں کرے گا"۔۔۔۔کیوں کہی تھی اس نے یہ بات۔۔۔۔۔اور وہ خطوط وہ گلدستے وہ بھی اسی نے بیجھے تھے اس کو سپانجی جانے کا کیسے علم ہوا۔۔۔۔یقیناً وہ اس کی کال ٹیپ کر رہا تھا جب زارا نے اس کو بتایا تھا ۔۔۔ اور وہ اس وقت گھر کے باہر ہی ہو گا مگر گلدستہ تو کچن کی ٹیبل پر رکھا تھا ۔۔۔تو کیا وو ان کے گھر بھی داخل ہو سکتا تھا اور اس کے کمرے میں بھی۔۔۔۔۔خوف کی لہر نے اسے اپنے حصار میں لے لیا وہ کر دروازہ بند کرنے ہی لگی تھی کے فاطمہ بیگم اندر آئ "حیا۔۔تمہارے ابّا تمہیں بلا رہے ہیں"اوکے آ رہی ہوں ۔۔۔ابّا۔۔۔اس نے ان کے کمرے کا دروازہ knock کیا ۔۔۔آ جاؤ حیا۔۔۔سامنے سلیمان صاحب بیٹھے تھے سوچون مے گم اور ایک طرف فاطمہ بیگم مجود تھی ۔۔۔۔آپ نے بلایا تھا ابّا ۔۔۔ہاں اؤ بیٹھو ۔۔۔میں نے ایک فیصلہ کیا ہے "اب تمہیں کورٹ سے سبین کے بیٹے سے طلاق لے لینی چاہیے ۔۔۔کوئی اس کے منہ پر چابک دے مارتا تو شاید تب بھی اسے اتنا دکھ نا ہوتا جتنا اب ہوا تھا ۔۔۔میں نے وکیل سے بات کر لی ہے عدالت کی ایک پیشی سے طلاق مل جائے گی اور جتنے بےزار وہ ہم سے ہیں انھیں اس بات سے بہت خوشی ہو گی ۔۔" ابّا کیا یہ واحد حل ہے "بہت دیر بعد وو بولی ۔۔کیا اس کے علاوہ بھی کوئی حل ہے کس قیمت پر ہم یہ رشتہ نبھائیں جب وہ کوئی امید ہی نہیں دلاتے ۔۔۔۔اگر آپ کو واقعی لگتا ہے آپ میرا گھر بسانا چاھتے ہیں تو آپ مجھے ترکی جانے دیں وہاں جا کر میں اس کو تلاش کروں گی ۔۔۔۔اور پوچھوں گی اگر وہ گھر بنانا چاہتا ہے تو ٹھیک ہے۔۔۔۔ ورنہ مجھے طلاق دے دے۔۔۔۔اگر نہیں دیتا تو مے کورٹ چلی جاؤں گی ۔۔۔مگر مجھے ایک آخری کوشش کر لینے دیں پلیز ۔۔۔وہ خاموش ہو گے شاید قائل ہو گے تھے ۔۔۔" ابّا آپ مجھے پانچ ماہ کا وقت دیں " اس نے کہا اور کمرے سے باہر چلی گئی ۔۔۔۔***********وہ خطبی لڑکی اسے کلاس کے باہر مل گئی تھی جب اس نے حیا کو روک لیا سنیئے مس سلیمان ۔۔حیا نے کوفت سے پلٹ کر دیکھا ۔۔۔جہاں خدیجہ رانا کھڑی تھی ۔۔ڈی جے ۔۔جسے ڈی۔۔جے صرف اس کے فرینڈز۔ کہا کرتے تھے وہ اس کی فرینڈ نا تھی اور نا ہی بننا چاہتی تھی ۔۔۔جی خدیجہ۔۔ اس نے ذرا مرووت سے جواب دیا ۔۔۔آپ نے ویزا کے لیے اپپلائی کر دیا ۔۔۔میڈم فرخندہ نے کہا ہے ہم دونو کو جلد از جلد ویزا کے لئے اپپلائی کرنا چاہیے۔۔۔ہمارے پاس بس پندرہ دن ہیں اور ترکی کا ویزا 15 دن میں کبھی نہیں لگا کرتا ۔۔وہ تیز تیز بولے جا رہی تھی اس کی بات کچھ ایسی تھی کے حیا کو سنجیدہ ہونا پرآ۔۔اہ تو اب ہمے کیا کرنا چاہے ۔۔"کل ترکش embaisi جانا ہو گا ان کا عجیب سا rule ہے کے ہر روز سب سے پہلے انے والے 15 امید واروں کا ہی انٹر ویو ہوتا ہے ۔۔۔آپ مجھے اپنا نمبر لکھوا دیں ۔۔۔۔اس نے بے دلی سے اپنا نمبر لکھوا دیا ۔۔۔۔خدیجہ اسے اپنے فون میں نوٹ کرتی گئی۔۔۔ٹھیک ہے صبح 6 بجے آپ diplomatic پہنچ جائے گا میں ووہیں ہوں گی۔۔۔اس نے اچھا کہ کر جان چھڑانے والے انداز مے سر ہلا دیا۔۔۔اور پلیز دیر مت کرنا یہ نا ہو کے آپ کی وجہ سے میرا ویزا بھی رہ جائے اآخر ۔۔۔وہ بھی خدیجہ رانا ہے۔۔۔کیا compny ملی ہے مجھے اف۔۔۔ وہ پیر پٹخ کر آگے بڑھ گئی۔۔۔۔*******سیاہ جیکٹ کی جیبوں میں ہاتھ ڈالے وہ چل رہی تھی ۔۔اماں اور ابّا کی کہی گئی باتیں دل و دماغ میں گھوم رہی تھی ۔۔وہ سیٹی کی تیز آواز تھی جس نے اسے خیالوں کے ہجوم سے نکالا۔۔اس نے چونک کر سر اٹھایا ۔۔وہ تین لرکے تھے مختلف سمتوں سے اس کی طرف آ رہے تھے جگہ قدرے سنسان تھی۔۔خالی چبوترہ تاریکی میں دڈوبا تھا ۔۔روشن دکانیں دور تھی ۔۔۔اس کا دل دھک سے رہ گیا وہ تیزی سے پلتی ادھر سے بھی ان کا کوئی چوتھا آ رہا تھا۔۔ان میں سے ایک لڑکے نے اس کو کلائی سے تھام کر اپنی طرف کھینچا تھا۔۔ابھی اس کے لبوں سے چینخ بھی نہیں نکلی تھی ۔۔آگے برھننے والآ خود بوکھلا کر پیچھے ہٹا تھا۔۔ٹن کی زور ڈر آواز کے ساتھ کسی نے اس لرکے کے سر پر کچھ مارا تھا۔۔۔"مرن جوگو ۔۔۔۔۔ باجی کو تنگ کرتے ہو ۔۔۔چھوڑو ں گی نہیں میں تمہیں ۔۔۔۔"وہ اونچی لمبی ڈولی ہاتھ میں پکرے فرائی پین کو گھما گھما کر مار رہی تھی۔۔۔۔حیا حکا بککا رہ گئی۔۔جس کو لگا تھا۔ وہ سر پکڑے ھوے بھگا باکی بھی پیچھے بھاگے۔۔۔وہ تیز تیز قدموں سے چبوترے کی جانب برھننے لگی۔۔۔" ارے باجی گل تے سنو"وہ اس کے پیچھے بھاگا۔۔حیا چلتے چلتے رکی ۔۔اور پلٹ کر اسے دیکھا۔۔کیا۔۔ہے۔۔ہاۓ ربّا۔۔۔ باجی تسی کینے سونے ہو ۔۔۔۔وہ چپ چاپ اسے دیکھنے لگی۔۔"شکریہ ہی بول دو باجی۔"شکریہ ۔۔اور کچھ۔"تسی تے ناراض لگ دے اہ جی۔۔ڈولی۔۔تم کیوں ہر جگہ میرے پیچھے آ جاتے ہو۔۔۔۔ہاں تے تہاڈی ہمیشہ مدد کیتی اے ۔۔۔تمہیں کس نے کہا ہے میری مدد کرنے کو۔۔"کس نے تمہیں میرے پیچھے لگایا ہے ۔۔بولو جواب دو ۔۔"ڈولی کا منہ آدھا کھلآ رہ گیا لینز لگی آنکھوں میں حیرت اور پھر آنسو تیرنے لگے۔۔۔۔کسی نے نہیں جی بری دیر بعد وہ دکھ سے بولآ "مجھے آپ اچھی لگتی ہو جی "اس لئے آپ کا خیال رکھتی ہوں آپ کو برا لگتا ہے تو نہیں آؤں گی۔۔اسے لمھے حیا کا فون بجا ۔۔۔اس نے چونک کر ہاتھ میں پکرے موبائل کو دیکھا اس پر private number calling آ رہآ تھا۔۔جاری ہے۔۔
Wednesday, 24 June 2020
Janat Ke Patte urdu Noval Part 2
جنت کے پتےتحریر
نمرہ احمد
قسط
2
ابا نکل تو نہیں گئے؟وہ پرفیوم کی بوتل بند کرتی، مخصوص ہارن اور گیٹ کھولنے کی آواز پر موبائل اور پرس اٹھا کر باہر کو بھاگی۔ مقررہ وقت ہونے کو تھا، آج داور بھائی کی بارات تھی۔پورچ خالی تھا۔ تایا فرقان کی بارات تھی۔پورچ خالی تھاز آ رہی تھی۔ اب کیا کرے؟ اب کیا کرے؟
ابا کو فون کرے یا تایا فرقان کے گھر جا کر کسی سے لفٹ مانگے؟وہ سوچ ہی رہہی تھی کہ گیٹ پر ہارن ہوا۔سیاہ چمکتی اکارڈ کھڑی تھی۔ وہ ولید لغاری تھا۔ ساتھ فرنٹ سیٹ پر اس کے والد تھے اور پیچھے والدہ۔ السلام علیکم حیا! وہ درواز کھول کر باہر نکلا۔وہ ان کے سامنے کھڑی تھی۔ گہرے سرخ کامدار بغیر آستینوں والا فراک جو پاؤں تک آتا تھا اور نیچے ہم رنگ تنگ پاجامہ۔ گدلڈن ڈوپٹہ گردن میں تھا۔ہمیں میرج ہال کا علم نہیں ہے، انکل ہے؟ وہ اسے نظرانداز کرتی لغاری صاحب کے دروازے کے پاس رکی۔ انکل پیراڈائز ہال جانا ہے اور ابا شاید نکل گئے۔ مجھے پتا ہی نہیں چلا۔اوہ تو آپ کے چچا وغیرہ؟وہ تو ابا سے بھی پہلے چلے گئے تھے۔ ٹھہریں! ابا زیادہ دور نہیں گئے ہو گے میں انہیں واپس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ارے وہ کیوں واپس آئیں؟ آپ ہمارے ساتھ آ جاؤ بیٹا! ہاں بیٹا آؤ! مسز منہاز لغاری نے فوراً دروازہ کھولا۔اب اگر ابا کا انتظار کرتی تو آدھا فنکشن نکل جاتا۔چلیں ٹھیک ہے۔ وہ گاڑی میں بیٹھ گئی۔تو ہماری بیٹی کیا کرتی ہے؟ راستے میں لغاری صاحب نے پوچھا۔(میں ان کی بیٹی کب سے ہو گئی?)جی میں شریعہ اینڈ لاء میں ایل ایل بی آنرز کر رہی ہوں۔یعنی کہ آپ اسلامی وکیل ہو؟جی! وہ پھیکا سا مسکرائی۔یہ لوگ اتنی اپنائیت کیوں دے رہے تھے اسے؟حیا بیٹاآپ کا شادی کے بعد پریکٹس کا ارادہ ہے؟ کیوں کے میں اور آپ کے انکل تو کبھی اس معاملے میں زبردتی کے قائل نہیں ہیں۔ خود ولید کو بھی شادی کے بعد بیوی کے جاب کرنے پر کوئ اعتراض نهیں ہے۔مہناز کہہ رہی تھی اور وہ ہکا بکا ان کو دیکھ رہی تھی۔ کیا معاملات اتنے آگے بڑھچ کے ہیں یا وہ اس خوش فہمی کا شکار ہیں کہ ابا ان کو کبھی انکار نہیں کرے گے۔وہ اس وقت پر سکون ہوئی جب میرج ہال کی بتیاں نظر آنے لگیں۔”لفٹ کا شکریہ انکل“۔ وہ انکل اور آنٹی کے ساتھ ہی باہر نکلی تھی۔ اسی پلانک کا موبائل بجا تو معزرت کر کے ایک طرف چلے گئے منہاز بی انبکے پیچھے گئیں۔حیا سنئیے! وہ جانے لگی تھی کہ ولید نے پکارا۔ مجھے آپ سے بات کرنی ہےمگر یہ مناسب نہیں ہےمگر مجھے اسی رشتے کے متعلق بات کرنی ہے۔ اگر آپ دو منٹ اندر بیٹھ کر بات سن لے تو۔ ساتھ ہی اس نے فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھولا۔موقعہ اچھا تھا۔ وہ اس کو اپنے نکاح کے بارےمیں بتا کر سارا معاملہ یہی دبا سکتی تھی۔ٹھیکہے لیکن یہاں ہمارے رشتہ دار ہیں اگر۔۔۔۔۔۔۔۔ڈونٹ وری میں کار کو بیک سائڈ پر لے جاؤں گا آپ بیٹھیے۔وہ بیٹھی تو ولید زن سے گاڑی آگے بڑھا لے گیا۔آپکو جو بھی کہنا ہے جلدی کہیے۔ پھر مجھے بھی آپکو کچھ کہنا ہے۔پہلے آپ کہیے۔ولید میرج ہال کی پچھلی طرف سنسان گلی میں گاڑی لے آیا تھا۔اوکے۔۔۔۔۔۔ مجھے کچھ بتانا تھا۔ میرے ابا نے معلوم نہیں آپ کو بتایا ہے یا نہیں مگر میں بتا نا ضروری سمجھتی ہوں۔ میرا نکاح میری پھوپھیکے بیٹے سے بچپن میں ہی ہو گیا تھا۔ وہ لوگ ترکی میں ہوتے ہیں۔ کچھ خاندانی مسائل کی وجہ سے میرے ابا ان سے تھوڑا بدظن ہے۔ اور مجھے ڈائیورس دلا کر میری شادی کہیں اور کرانا چاہتے ہیں مگر میں ایسا نہیں چاہتی۔پلیز آپ انکار کر دے میں کسی اور کی بیوی ہوں نکاح پر نکاح نہیں ہو سکتا ۔ پلیز میں آپ سے درخواست کرتی ہوں۔اس نے چہرہ اوپر اٹھایا۔ وہ یک ٹک گہری کاموشنگاہوں سے اسے دیکھ رہا تھا۔ یہ اس کا چہرہ ت نہ تھا جو وہ سارا راستہ ڈرائیونگ کے دوران دیکھتی آئ تھی۔ یہ تو کوئی اور ہی شخص تھا۔پھر۔۔۔۔۔۔ پھر آپ نے کیا سوچا؟ اس کی آواز لڑکھڑا گئی۔ خطرے کا الارم زور زور سے اس کے اندر بجنے لگا۔کس بارے میں؟ وہ بوجھل آواز میں بولا۔ اس کا ہاتھ ہینڈل پر رینگ گیا۔آپ کے اس رشتے سے انکار کے بازے میں۔عمر پڑی ہے یہ باتیں کنے کے لیے حیا! ابھی تو ان لمحوں کا فائدہ اٹھاؤ جو میسر ہے۔ وہ ایک دم اس پر جھکا۔ حیا کے لبوں سے چیخ نکلی۔ دولید نے دونوں ہاتھ اس کی گردن پر رکھنے چاہیے۔ مگر اس نے زور سے ہینڈل گھما کر دروازہ کھولا اور دوسرے ہاتھ سے ولید کو دھکادے کر باہر نکلی۔ اس کا ڈوپٹہ ولید کے ہاتھ میں آ گیا تھا۔ وہ بنا پیچھے مڑ کردیکھے بھاگی جا رہی تھی۔گلیاں سنسن تھی ۔ جانے وہ کہاں لے آیا تھا۔وہ بھاگتے ہوئے گلی کے دوسرے سرے پر پہنچی ، مگر یہ کیا؟ گلی آگے سے بند تھی۔ ڈیڈ اینڈ۔۔۔۔۔کیوں بھاگتی ہو ؟ مسرور سے انداز میں پیچھے سے کسی نے کہا تو وہ گبھرا کر پلٹی۔ ولید سامنے سے قدم قدم چلتا آ رہا تھا۔ اس کے لبوں پر فاتحانہ مسکراہٹ تھی۔ وہ نڈھال سی دیوار سے لگ گئ. اس کا ڈوپٹہ تو وہی رہ گیا تھا۔ اب بغیر آستینوں کے جھلکتے بازو اور گلے کا گہرا کاٹ۔ اس نے بے اختیار سینے پر بازو لپیٹے۔”مجھے جانے دو!“ اس کی آواز گھبرا گئی۔کیسے جانے دوں، پھر تم نے ہاتھ تھوڑے ہی آنا ہے۔؟ وہ چلتے چلتے اس سے چند قدم کے فاصلے پر آ کر کھڑا ہو گیا۔”پلیز میں ایسی لڑکی نہیں ہوں“ ”تو کیسی لڑکی ہو؟“ مجھ سے لفٹ لے لی مگر شادی سے انکار ہے؟ تب ہی گاڑی میں اتنی بے رخی دکھا رہی تھیں؟ وہ اس کے بالکل سامنے آ رکاپلیز۔۔۔۔۔۔۔۔ اس میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ اب ولید کو دھکا دیتی۔شش!وہ مسکراتے ہوئےآگےبڑھا۔ حیا نے سختی سے آنکھیں میچ لیں۔تب ہی اس نے زور سے کسی ضرب لگنے کی آواز سنی اور پھر ولید کی کراہ۔ اس نے دھیرے سے آنکھیں کھولیں۔ ولید چکرا کر نیچے گر رہا تھا اور اس کے پیچھے کوئی کھڑا نظر آ رہا تھا۔ شوخ نارنجی شلوار قمیض میں ملبوس، میک اپ سے اٹا چہرہ لیے، وہی اس روز والا خواجہ سرا ڈولی۔ اس کے ہاتھ میں ایک فرائنگ پین تھا جو اس نے شاید ولید کے سر پر مارا تھا۔ وہ ساکت کھڑی اس کو دیکھ رہی تھی۔وہ دو قدم آگے بڑھا اور عین حیا کے سامنے رکا۔ اس کی آنکھوں میں ایسی کاٹ تھی کہ وہ سانس روکے اسے دیکھے گئی۔تب ہی اس نے ہاتھ بڑھایا اور حیا کو گردن کے پیچھے سے دبوچا لیکن اس کے منہ سے کراہ تک نہ نکلی۔اس کی گردن کو یونہی پیچھے سے دبوچے ڈولی نےایک جھٹکے سے اسے آگے دھکیلا۔گلی کے آغاز تک جہاں سے وہ آئی تھی، وہ اسے لے گیا، پھر مخالف سمت مڑ گیا۔ سامنے ہی میرج ہال کا پچھلا حصہ تھا۔وہ اسے گیٹ تک لے آیا اور ایک جھٹکے سے اسے چھوڑا۔ اس نے ڈبڈبائی آنکھوں سے ڈولی کو دیکھا۔وہ ابھی تک لب بھینچے، تلخ کاٹ دار آنکھوں سے اسے دیکھ رہا تھا۔دفعتاً ڈولی نے اپنی گردن سے لپٹا نارنجی دوپٹہ کھینچا اور اس پر اچھالا۔۔۔۔۔ ڈوپٹہ اس کے سر پر آن ٹھہرا۔ ڈولی چبھتی ہوئی نطروں سے اسے دیکھتا ہوا بولا ۔”بے حیا“پھر وہ پلٹ گیا۔ نارنجی ڈوپٹہ اس کے کندھوں سے پھسل کر قدموں میں آ گرا تو وہ چونکی، پھر جھک کر ڈوپٹہ اٹھایا۔ ۔اس نےاچھے طریقے سے خود کو اس میں لپیٹا، تا کہ پہچانی نہ جائے اور پچھلےگیٹ کی طرف بڑھ گئی۔ہال میں جانے کی بجائے وہ باتھ رومز کی طرف آئی اور اپنا حلیہ درست کیا۔اندر فنکشن عروج پر تھا۔وہ ایسی حالت میں نہ تھی کہ دو قدم بھی چل پاتی سو بی دم سی آخری نشست پر گری ہوئی تھی۔”بے حیا“”بے حیا“”بے حیا“ڈولی کے لفظ ہتھوروں کی طرح اس کے دماغ پر برس رہے تھے۔ وہ بے حیا تو نہیں تھی۔ وہ تو کبھی کسی لڑکے کی گاڑی میں نہیں بیٹھی تھی۔ اس سے تو یہ غلطی پہلی بار ہوئی تھی، پھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟ سوچ سوچ کر دماغ پھٹا جا رہا تھا۔وہ آدھے فنکشن کے بعد ہی طبیعب خرابی کا بہانہ کر کے چلی آئی تھی۔****************یہ داور اور سونیا کی شادی کے چند دن بعد کا ذکر ہے۔صبح سے سردی بہت بڑھ گئی تھی۔ دسمبر ختم ہونے کو تھا۔ ایسے میں وہ کیمپس میں اسکالر شپ کوآرڈینیٹر کے آفس کے باہر لگی لسٹ کو دیکھ رہی تھی۔ ”اریسمس منڈس ایکسچینج پروگرام“ کے تحت اسٹوڈنٹس میں سے صرف دو لڑکیاں سبانجی یونیورسٹی جا رہی ھی۔حیا سلیمان اور خدیجہ رانا۔یہ خدیجہ رانا کون ہے بھلا؟ وہ سوچتے ہوئے اپنے یخ ہوتے ہاتھ آپس میں رگڑ رہی تھی۔ دفعتاً پیچھے سے کسی نے پکارا۔”ایکسکیوزی !“وہ چونک کر پلٹی۔ پیچھے ایک لڑکی کھڑی تھی۔ وہ اس کو نام سے نہیں پہچانتی تھی لیکن یونی میں کئی بار دیکھا تھا۔ وہ لڑکی اسے خوامخواہ ہی بری لگی تھی۔”یہ حیا سلیمان کون ہی بھلا؟“ وہ چشمے کے پیچھے سے آنکھیں سکیڑے سوچتی ہوئی کہہ رہی تھی۔حیا نے ایک طنزیہ نگاہ میں سر سے پاؤں تک جائزہ لیا، پھر ذرا روکھے انداز میں بولی۔ ”میں ہوں“اوہ! اس نے جیسے بمشکل اپنی ناگواری چھپائی ۔میں آپکے ساتھ ترکی جا رہی ہوں حیا! میری فرینڈز مجھے ڈی جے کہتی ہے لیکن آپ میری فرینڈ نہیں ہیں، سو خدیجہ ہی کہیے گا۔مجھے بھی حیا صرف میرے فرینڈز کہتےہیں آپ مجھے مس سلیمان کہہ سکتی ہیں۔ وہ کہہ کر پلٹ گئی۔وہ جیسے ہی گھر آئی، ظفر سامنے سے آ گیا۔ بھاگتا ہوا، ہانپتا ہوا۔حیا بی بی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حیا بی بی!” بول بھی چکو اب! وہ گاڑی لاک کرتی کوفت زدہ ہوئی۔آپکو ارم بی بی بلا رہی ہیں۔خیریت؟خیریت نہیں لگتی جی۔ وہ بہت رو رہی ہیں۔ ظفر نے رازداری سے بتایاتو وہ چونکی۔اچھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں آتی ہوں، تم یہ میرا بیگ اندر رکھ دو۔ لاؤنج میں صائمہ تائی اور سونیا بیٹھی تھی۔آہٹ پہ سر اٹھایا۔ اسے دیکھ کر دونوں ہی مسکرا دیں۔حیا کیسی ہو؟ بالکل ٹھیک۔ ارم کہاں ہے تائی اماں! مجھے بلا رہی تھی۔اندر کمرے میں ہو گی۔اوکےمیں دیکھ لیتی ہوں۔ ارم کے کمرےکا دروازہ کھولا تو ارم بیڈ پر اکڑوں بیٹھی تھی۔ سامنے لیپ ٹاپ کھلا پڑا تھا۔۔ ارم کے چہرے پر آنسو لڑیوں کی صورت بہہ رہےتھے۔ارم کیا ہوا؟ وہ قدرے فکرمندی سے ارم کے پاس آ بیٹھی۔ ارم نے سرخ متورم آنکھیں اٹھا کر حیا کودیکھا۔ اس کی آنکھوں میں کچھ تھا جو اے ٹھٹکا گیا۔حیا ایک بات بتاؤ ؟ اسکا رندھاہوا لہجہ عجیب سا تھا۔بولو!ہم شریف لڑکیاں ہے کیا؟ اپنے بارےمیں تو یقین ہے مگر تمہارا معاملہ ذرا مشکوک ہے۔ اس نے ماحول کا بوجھل پن دور کرنے کو کہا مگر ارم مسکرائی تک نہیں۔نہیں حیا ہم دونوں کا ایک ہی معاملہ ہے۔کیوں پہیلیاں بجھوا رہی ہو؟ ہوا کیا ہے؟حیا مجھے بتاؤ کیا ہم مجرا کرنے والیاں یں۔؟ وہ ایک دم رونے لگی تھی۔ارم! وہ ششدر رہ گئی۔بتاؤ, کیا ہم طوائفیں ہیں؟ وہ اور زور سے رونے لگی۔ارم! بات کیا ہوئی ہے؟حیا! بولو، بتاؤ ہم ایسی ہیں کیا؟ نہیں، بالکل نہیں!پھر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر یہ کیا ہے؟ ارم نے لیپ ٹاپ کی سکرین کا رخ اس کی طرف کیا۔کیا ہے یہ؟ اس نےالجھن سے سکرین کو دیکھا۔ اس پر ایک ویڈیو چل رہیتھی۔ ویڈیو کا کیپشن اوپر رومن اردو میں لکھا ہوا تھا۔شریفوں کا مجرا“ویڈیو کسی شادی کے فنکشن کی تھی۔ ڈانس فلور پر محو رقص دو لڑکیاں۔ایک کا لہنگا گولڈن تھا اور دوسری کا سلور۔پوری چھت جیسے اس کے سر پر آن گری۔نہیں! وہ کرنٹ کھا کر اٹھی۔ یہ کیا ہے؟یہ شریفوں کا مجرا ہے حیا اور یہہم نے کیا ہے۔ یہ داور بھائی کی شادی کی ویڈیو ہے جو کسی نے انٹر نیٹ پر ڈال دی ہے۔ یہ پڑھو، ویڈیو دالنےوالے نےاپنا ای میل ایڈریس بھی دیا ہے۔ جس پر میل کر کے پورے ڈانس کی ویڈیو بھی حاصل کی جا سکتی ہے۔ یہ دیکھو۔۔۔۔ اس ویڈیو کو تین دن سے سینکڑوں لوگ دیکھ چکے ہیں۔ حیا! ہم برباد ہو چکے ہیں۔ ہم کہیں کے نہیں رہے۔اس کے گکانوں سے دھواں نکلنے لگا۔نہیں ۔۔۔۔۔۔ یہ میں نے نہیں کیا۔ وہ یک یک دم پیچھے ہو رہی تھی۔ اس کے لب کپکپا رہے تھے۔ ارم اسی طرح بلک رہی تھی۔میں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں مجرا کرنے والی نہیں ہوں میں شریفلڑکی ہوں۔یہ ہم ہی ہیں حیا! ہم بباد ہو گئے۔ابا تو مجھے گولی مار دے گے ارم!مجھے تو زندہ گاڑ دیں گےمگر یہ ویڈیو کس نے بنائ؟ ہم نےتو مووی والے کو منع کر دیا تھا۔کسی نے چھپ کر بنائی ہو گی۔کچھ کروارم ۔ اس کا سکتہ ٹوٹا وہ تیزی سے ارم کے قریب آئی۔میں نے اس ویب سائٹ پر رپورٹ تو کی ہے لیکن ویب سائٹ نے ایکشن لے کر ویڈیو ہٹا دی تو بھی یہ سی ڈی پر ہر جگہ مل رہی ہے۔ ایسی چیزیں تو منٹوں میں پھیلتی ہیں۔ ہم کہاں کہاں سے ادے ہٹوائیں گے؟خدایا یہ کیا ہو گیا؟ اگر بابا یا پھر کسی بھائی وغیرہکو معلوم ہوگیا تو۔۔۔۔۔۔۔۔ اوہ خدایا ہم کیا کریں؟سوچ سوچ کر دماغ پھٹا جا رہا تھا مگر کوئیحل نظر نہیں آ رہا تھاشام میں وہ سو رہی تھی کہ راحیل کا فون آ گیا۔ اس کے دماغ میں کطرے کا الارم بجھنے پگا تھا۔ ھہو حیا کیسیہو؟ روحیل کی آواز میں گرم جوشی تھی۔ وہ کچھ اندازہ نہ کر پائی۔ٹھیک۔۔۔۔۔۔۔۔تم۔۔۔۔۔۔۔تم ٹھیک ہو؟ایک دم فٹ۔ میں نے تمہیں مبارک با دینی تھی۔کک۔۔۔۔۔۔۔۔ کس بات کی؟ بھئی تم ایکسچینج پروگرام کے تحت ترکی جا رہی ہو اور کس بات کی بھلا؟اوہ اچھا۔ تھینک یو سو مچ۔ اس کی اٹکی ہوئی سانس بحال ہوئی۔کب تک جانا ہے۔ وہ خوشی سے پوچھ رہا تھا۔جنوری کے اینڈ تک یا فروری کے شروع تک۔و کیا تم ادھر سبین پھو پھو کی فیملی سے ملو گی؟پتا نہیں، ابھی سوچا نہیں ہے۔۔کیا بات ہے تم اپ سیٹ لگ رہی ہو؟وہ ذرا پریشان ہوا۔ارے نہیں۔۔۔۔۔۔ وہ فوراً سنبھلی اور پھر ادھر ادھر کی باتیں کر کے خود کو نارمل ظاہر کرنے میں کامیاب ہو ہی گئ۔فون بند ہوا تو وہ ارم کی طرف چلیآئی۔یوں منہ سر لپیٹ کر بیٹھنے سے کچھ نہیں ہو گا۔تو کیا کریں؟ ارم نے تکیہ پھینکا اور اٹھ بیٹھی۔سب سے پہلے تو سارے گھر کے کمپیوٹرز سے اس ویب سائٹ کو بلاک کرتے ہیں۔تا کہ کم از کم گھر والوں کو تو نہ پتہ چلے، پھر اس کا کوئی مستقل حل سوچتے ہیں۔ٹھیک ہے چلو! امید کا سرا نظر آتے ہی ارم اٹھ کھڑی ہوئی۔ بنا کسی دقت کے جب وہ تمام کمپیوٹرز پر اس ویب سائٹ کو بلاک کر چکی تو صائمہ تائی نے آ کر بتایا کہ رات میں ارم کو دیکھنے کے لیے تایا فرقان کے کوئی فیملی فرینڈ بمع خاندان آ رہے ہیں۔ رسمی کاروائ تھی کیونکیہ رشتہ تو وہ ڈھکے چھپےلفظوں میں مانگہی چکے تھے۔ حیا سب کچھ بھول کرپرجوش ہو گئی۔**********************ہمارے دولہا بھائی بھی ساتھ ہی آیے ہیں۔ حیا نے آ کر ارم کو بتایا۔تم ایسےکیوں بیٹی ہو؟ ارم نے آہستہ سے سر اٹھایا۔وہ ویڈیو؟دفع کرو اسے۔ آؤ سب بھلا رہے ہیں۔ لڑکے کو اس کی والدہ ماجدہ نے اندر بلایا ہے۔ تمہیں دکھانے کے لئے۔ آؤ۔ اس نے ہاتھ پکڑ کر اسے کھڑا کیا۔وہ ارم کو پکڑے ڈرایئنگ روم میں آ گئی۔سامنے دو سنگل صوفوں پر ایک نفیس سی خاتون اور ایک خوبرو سا نوجوان بیٹھا تھا۔******** بس بھابھی! ہمیں تو اپنے جیسی ہی بچی چاہیے۔ با حیا، با پردہ، صوم و صلاة کی پابند۔ وہ خاتون مسکرا کر کہہ رہی تھیں۔ارے مسز کریم! ہماری ارم تو کبھی سر ڈھکے بغیر گیٹ سے باہر نہیں نکلی۔السلام علیکم! وہ ارم کو ساتھ لیے اندر داخل ہوئی۔ اسکے سلام پر سب نے سر اٹھا کر دیکھا۔ارم جھکی جھکی نگاہوں کے سے سامنے ایک صوفے پر بیٹھ گئی۔ حیا بھی ساتھ ہی تھی۔بیگم کریم کی مشفق سی آنکھوں میں ارم کے لئے پسندیدگی کی جھلک اٹھی تھی۔ انہوں نے تائیدی انداز میں اپنے سمارٹ سے بیٹے کو دیکھا, مگر وہ ارم کو نہیں بلکہ بہت غور سے حیا کو دیکھ رہاتھا۔اور بیٹا آپ کیا کرتی ہیں؟ بیٹے کو متوجہ نہ پا کر وہ ارم سے مخاطب ہوئی۔جی! ماسٹرز کر رہی ہوں انگلش لٹریچر میں۔ ارم نے جھکی جھکی نظروں سے جواب دیا۔تب ہی حیا کو محسعس ہوا کہ وہ لڑکا مسلسل اسے دیکھ رہا ہے۔ بڑی جانچتی نظروں سے۔دفعتاً اس نے پاکٹ سے اپنا بلیک بیری فون نکالا اور خاموشی سے سر جھکائے بٹن پریس کرنے لگا۔خواتین آپس میں مصروف تھیں۔ مگر حیا کو کچھ عجیب سا محسوس ہو رہا تھا۔ تب ہی ہولے سے اس کے مبائل سے ” مائی نیم از شیلا“ کی آواز گونجی۔ جسے اس نے فوراً بند کر دیا۔ مگر وہ سققان چکی تھی۔ شیلا کے ساتھ شادیوں کا مخصوص شور بھی سنائی دیا تھا اور ارم نے بھی شاید کچھ سنا تھا، تب ہی چونک کر گردن اٹھائ ار پھر قدرے سبکی سے واپس جھکا دی۔حیا کو اپنے جسم سے جان نکلتی ہوئی محسوس ہوئ۔ کیا دنیا اتنی چھوٹی تھی؟وہ اب سکرین پر کچھ دیکھ رہا تھا، کبھی سکرین پر دیکھتا اور کبھی حیا اور ارم کے چہروں پر نظر ڈالتا۔ صاف ظاہر تھا کہ وہ کچھ ملانے کی سعی کر رہا تھا۔پھر ایک دم وہ اٹھا اور تیزی سے کمرے سے نکل گیا۔ ایک شرمندہ سی خاموشی نے سارےماحول کو گھیرلیا۔حیا نے سر جھکا دیا، اسے اپنا دل ڈوبتا ہوا سا محسوس ہوا تھا۔ ****************وہ بہت بے چین سی بیٹھی غائب دماغی سے ٹی وی دیکھ رہی تھی ریمورٹ ہاتھ میں پکڑا ہوا تھا۔ جہاں موبائل کمپنی کے ساتھ ” غیر تصدیق شدہ سم کا استعمال قانوناً جرم ہے۔ پی ٹی اے“ لکھا آ رہا تھا۔ جانے کب pause کا نبٹن اس سے دبا اور اشتہار وہیں رک گیا۔ وہ اتنی دور بھٹکی ہوئی تھی کہ play بھی نہ کر سکی۔دفعتاً دروازے میں فاطمہ بیگم کی شکل دکھائی دی۔ وہ تھکی تھکی سی اندرداخل ہو رہی تھیں۔ حیا ریمورٹ پھینک کر تیزی سے اٹھی۔کیا بات تھی؟ صائمہ تائی نے کیوں بلایا تھا؟ارم کے رشتے کے لیے جو لوگ اس دن آئے تھے انہوں نے انکار کر دیا ہے، حالانکہ رشتہ مانگ چکے تھے۔اور حیا کا دل بہت ڈوب کر ابھرا تھا۔کیوں؟ کیوں انکار کر دیا؟ اس کو اپنا سانس رکتا ہوا محسوس ہوا۔کوئی وجہ نہیں بتاتے۔ بس ایک دم ہی پیچھے ہٹ گئے۔ صائمہ بھابھی بھی بہت اپ سیٹ تھیں۔مگر کچھ تو کہا ہو گا؟بس یہی کہا ہے کہ ہم نے کسی آزاد خیال اوربے پردہ لڑکی کو بہو بنا کر اپنی عاقبت خراب نہیں کرنی۔وہ متحیر رہ گئی۔ چند روز قبل سنا تائی کا فقرہ سماعت میں گونجا تھا۔”جب فرقان نے سختی کی کہ بھلا ایسی بے پردہ اور آزد خیال لڑکی کو بہو بنا کر ہم نے اپنی آخرت بگاڑنی ہے کیا، تب کہیں جا کر وہ مانا“کیا اس کو مکافات عمل کہتے ہیں؟کیا دوسروں کی بیٹیوں پر انگلیاں اٹھانے والوں کےگھروں پر وہی اٹھی انگلیاں لوٹ کر آتی ہیں؟مگر وہ خوش نہیں ہو پائی۔ اگر بات کھل جاتی تو اصل بدنامی تو اسی کے حصے میں آتی۔ ارم کو تو شاید اس کی ماں ”حیا نے اسے بگاڑا ہے“ کہہ کر درمیان سے نکال لیتی اور بات تو اب بھی کھل سکتی تھی۔ وہ ویڈیو تو اب بھی انٹر نیٹ پر موجود تھی۔ ٹی وی سکرین پر اب بھی اشتہار رکا ہوا تھا۔ وہ بس خالی خالی نظروں سے اسے دیکھے گئی۔”بغیر تصدیق شدہ سم کا استعمال قانوناً جرم ہے۔ پی ٹی اے۔“”بغیر تصدیق شدہ سم کا استعمال قانوناً جرم ہے۔ پی ٹی اے“وہ بے خیالی میں تکتی، سوچوں کی الجھن سے نکل کر ایک دم چونکی۔۔”بغیر تصدیق شدہ سمبکا استعمال قانوناً جرم ہے۔ پی ٹی اے“بجلی کا ایک کوندا سا اس کےذہن میں لکا تھا۔اوہ خدایا! یہ خیال اسے پہلے کیوں نہیں آیا تھا؟وہ ایک جھٹکے سے اٹھی اور باہر کی طرف لپکی۔”ارم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ارم۔۔۔۔۔۔۔۔۔“ بہت جوش سے چلاتے ہوئے حیا نے اس کے کمرے کا دروازہ کھولا۔ارم موبائل پکڑے بیڈ پر بیٹھی تھی، دروازہ کھلنے پر گڑبڑا کر موبائل سائڈ پر رکھا۔کیا ہوا؟ ساتھ ہی ارم نے اپنا موبائل الٹا کر دیا تا کہ اسکرین چھپ جائے۔سنو وہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تب ہی رشتے والی بات یاد آئی۔ اوہ آئی ایم سوری ان لوگوں نے رشتے سے انکار کر دیا۔وہ تو ویڈیو دیکھ کر کرنا ہی تھا، خیر جانے دو اچھا ہی ہوا۔ وہ مطمئن تھی۔ارم تم ے کبھی موبائل کنکشنز کے اشتہاروں میں وہ عبارت پڑھی ہے کہ غیر تصدیق شدہ سم کا استعمال جرم ہے۔ہاں تو؟تو کیا تمہیں معلوم ہے کہ سم رجسٹر کروانا کیوں ضروری ہوتا ہے؟کیوں؟تا کہ کوئی کسی سم کا غلط استعمال نہ کر سکے، چاہے وہ دہشت گردی کی وردات ہو یا کسی کو رانگ کالز کرنا، یہ سب سائبر کرائم کے تحت آتا ہے۔سائبر کرائم؟ ارم نے پلکیں جھپکائیں۔ارم۔۔۔۔۔۔۔۔ ارم ہماری پرسنل ویڈیوانٹرنیٹ پر ڈال دینا بھی تو ایک سنگین جرم ہے، ہم اس کی رپورٹ کر سکتے ہیں۔مگر ہم کس کو رپورٹ کریں گے؟ وہ نیم رضا مند ہوئی تو حیا نےجھٹ اپنا موبائل نکالا۔پی ٹی اے کو، روازہ بند کرو، میں ہیلپ لائن سے نمبر لیتی ہوں۔پی ٹی اے کی آپریٹر نے نہایت شائستگی سے یہ کہہ کر معزرت کرلی کہ اس طرح کے کیس کی سائبر کرائم یا کسی انٹیلی جنس کے سائبر سیل کو رپورٹ کرنی ہوگی حیا نے ان سے ملک کی سب سے بڑی سرکاری، سویلین ایجنسی کے سائبر کرائم سیل کا ای میل ایڈریس تو لے لیا لیکن اب وہ متزبزب بیٹھی تھی۔یہ انٹیلی جنس والے بڑے خطرنا لوگ ہوتے ہیں ارم! مگر اب یہ کرنا تو ہے نا!ارم نے لیپ ٹاپ کھولا پھر انہوں نے ایک کمپلینٹ لکھی اور اس پتے پر بھیج دی جو پی ٹی اے سے ان کو ملا تھا۔بمشکل دس منٹ گزرے تھےکہ حیا کا موبائل بجا۔ چمکتی سکرین پر private number calling لکھا آ رہا تھا۔ یہ کون ہو سکتا ہے؟ اس نےاچنبھے سے موبائل کان سے لگایا۔ہیلو! مس حیا سلیمان؟جج۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ کون؟میں میجر احمد بات کر رہا ہوں، سائبر کرائم سی سے۔ ہمیں ابھی آپ کی کمپلینٹ موصوپ ہوئی ہے۔وہ جو کوئی بھی تھا بہت خوبصورت بولتا تھا۔ گہرا، گمبھیر لہجہ جس میں ذرا سی چاشنی بھری تپش تھی۔ گرم اور سرد کا امتزاج۔مگر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میجر احمد ۔۔۔۔۔۔۔ میں نے کمپلینٹ میں اپنا نمبر تو نہیں لکھا تھا۔ جواباً وہ دھیرے سے ہنس دیا۔نمبر تو بہت عام سی چیز ہے مس سلیمان!میں تو آپ کے بارے میں بہت کچھ جانتا ہوں۔کیا؟یہی کی آپ سلیمان اصغر کی بیٹی ہیں۔ آپ کے والد کی ایک کنسٹریکشن کمپنی ہے۔ آپ کا بھائی روحیل جارج میسن یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہے۔ خود آپ انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی میں ایل ایل بی آنرز شریعہ اینڈ لاء کے پانچویں سال میں ہیں۔ فروری میں آپ ایکسچینج پروگرام کے تحت استنبول جا رہی ہیں، غالباً سبانجی یونیورسٹی میں اور پچھلے ہفتے اپنے کزن داور فرقان کی مہندی کی فنکشن پہ بننے والی ویڈیو کی انٹرنیٹ پہ اپ لوڈنگ کو آپ نے رپورٹ کیاہے۔ از دیٹ رائٹ میم؟وہ جو دمبخود سنتی جا رہی تھی، بمشکل بول پائی۔جی۔۔۔۔۔۔۔۔جی وہی ویڈیو۔اب آپ کیا چاہتی ہیں؟یہی کی آپ اسے ویب سائٹ سے ہٹادیں۔اوکے اور کچھ؟اور جن لوگوں کے پاس اس کی سی ڈی ہے وہ بھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں شہر کےایک ایک بندے سے وہ ویڈیو نکلوا لوں گا آپ بے فکر رہیے۔ اور اسے لگا منوں بوجھ اس کے اوپر سے اتر گیا ہو۔تھینک یو میجر احمد۔ اس کے انداز سے لگ رہا تھا کہ وہ فون رکھنے وال ہے تو وہ بول اٹھا۔تھینک یو تو آپ تب کہیں جب میں یہ کام کردوں اور اس کام کو محض شروع کرنےکے لیے بھی مجھے آپ کا تعاون چاہیے۔کیسا تعاون؟آپ کو باقاعدہ رپورٹ کرنے کے لیے میرے آفس آنا ہو گا۔کیا؟ نہیں، نہیں میں نہیں آ سکتی۔پھر تویہ کام نہیں ہو پائے گا۔ ایسے اسٹیپ فون پر نہیں لیے جا سکتے۔ اسے لگا وہ محفوظ سا مسکرا رہا تھا۔مم۔۔۔۔۔۔ مگر میں نہہیں آسکتی۔ اور وہ کیسے آ سکتی تھی؟ اگر کسی کو پتا چل جاتا تو کتنی بدنامی ہوتی۔آپ کو آنا پڑے گا، میں گاڑی بھیج دیتا ہوں۔نہیں نہیں، اچھا خدا حافظ۔ اس نے جلدی سےفون بند کر دیا۔بھاڑ میں گیا یہ اور اس کا سائبر کرائم سیل۔ اگر ابا یا تایا ابا کو پتا چل گیا کہ ہم ایک ایجنسی کے ہیڈکواٹرز گئے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو ہماری ٹانگیں توڑ دیں گے وہ۔میں تو پہلے ہی کہہ رہیتھی کہ رپورٹ نہ کرو۔پرائیویٹ نمبر سے پھر کا آنے لگی تھی۔اس نے جھنجھلا کر فون ہیآف کر دیا۔ اس ویڈیو سے زیادہ میجر احمد نے اسے بلیک میل کیا ہے۔ یہ خیال پھر سارا دن اس کے ذہن میں گونجتا رہا۔********************وہ بہت تھکی ہوئ پاسپورٹ آفس سے نکلی تھی۔ وہ آج پاسپورٹ آفس سے اپنا پاسپورٹ اٹھانے آئی تھی مگر یہاں علم ہوا کہ پاسپورٹ چودہ فروری کو ہی مل پائے گا۔اسلام آباد میں کوئی تکنیکی مسئلہ تھا اس لیےاسے پنڈی میں ہی اپلائی کرنا پڑا تھا۔اور چودہ فروری میں ابھی ہفتہ پڑا تھا۔سگنل پر اس نےگاڑی روکی اور شیشے کھول دیے۔یکایک کوئی اس کی کھڑکھی میں جھکا۔سوہنیو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا سوچ رہے ہو؟وہ بری طرح چونکی اور سر اٹھا کر دیکھا۔وہ وہی تھا ڈولی۔ناگواری کی ایک لہر اس کے چہرے پر سمت آئی۔ اسے بھول گیا کہ کبھی دولی نے اس پر کوئی احسان کیا تھا۔ہٹو سامنے سے۔ وہ جھڑک کر بولی۔ وہ کھلی کھڑکی میں اس طرح ہاتھ جما کر کھڑا تھا کہ وہ شیشہ اونچا نہیں کر سکتی تھی۔لو باجی! میں تو سلام دعا کرنے آئی تھی اور آپ غصہ کر رہی ہو۔ اس کے چہرے پر کراہیت بڑی معصومیت تھی۔ہٹو سامنے سے ورنہ میں پولیس کو بلا لوں گی۔ہائے باجی! ڈولی سے ایسے بات کرتی ہو؟ اور آپ کی تریفیں کر کر کے ڈولی نے میرا سر کھا لیا تھا۔اس نے آواز پر سر گھما کر دیکھا تو فرنٹ سیٹ کی کھلی کھڑکی پر ایک اور خواجہ سرا کھڑا تھا۔وہ دونوں ہاتھ کھڑکی کی چوکھٹ میں دیے کھڑا تھا۔یہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کون ہو تم؟ ہٹو میری گاڑی سے۔یہ جی میری بہن ہے پنکی۔ بڑا شوق تھا جی اسے آپ سے ملنے کا۔ ایک بڑی ضروری بات کرنی تھی جی ہمیں آپ سے۔گیٹ لاسٹ۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر شیشہ اونچا کرنا چاہا مگر پنکی نے اپنا ہاتھ اندر کر دیا۔ ایک دم سے اس کی کلائی سامنے آئی تھی۔ اس کی کلائی پر ایک گلابی سرخ سا کانٹا بنا تھا۔ جیسے جلا ہو یا شاید برتھ مارک۔ہٹو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آئی سے گیٹ لاسٹ۔ وہ عالم طیش میں شیشہ اوپر کرنےلگی مگر پنکی نے اس پر اپنے ہاتھ رکھ دیے تھے۔ شیشہ اوپر نہیں ہو پا رہا تھا۔باجی! ایسے نا کرو پنکی نال۔ اس کا ہاتھ زخمی ہو جائےگا جی۔ ڈولی نے پیچھے سے کہتے ہوئے پیچھے سے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ اس نے ڈولی کو دھکا دیا اور وہ لڑکھڑا کر چند قدم پیچھے ہٹا تو اس نے جلدی سے شیشہ اوپر کیا۔اب تم بھی ہٹوادھر سے۔ وہ شیشہ بند کرنے لگی لیکن وہ اڑ ہی گیا تھا۔باجی جی میں تہانوں ڈولی کے دل کی بات بتانے آئ تھی اور تساں اس طرح کر رہے ہو، یہ جو ڈولی ہے نا یہ بڑا پسند کرتی ہےآپ کو مگر اقرار نہیں کرتی۔پیچھے ڈولی شیشہ بجانے لگا تھا۔وہ پوری قوت سے شیشہ اوپر چڑھانے لگی۔ پنکی نے لمحہ بھر کو گردن موڑ کر ڈولی کو دیکھا تو اس کی گرفت ذرا ڈھیلی ہوئی حیا نے فوراً شیشہ اوپر چڑھایا۔ پنکی نے چونک کر دیکھا پھر انگلیاں کھینچنی چاہیں مگر وہ مسلسل شیشہ اوپر کر رہی تھی۔ پنکی کی انگلیاں پھنس کر رہ گئی۔اوہ چھڈو باجی جی!دفعتاً بنکی کے دائیں ہاتھ کی انگلی سے خون کی بونڈ ٹک کر شیشے پر گری تو اسے ہوش آیا ایک جھٹکے سے اس نے لیور نیچے کیا۔ پنکی نے غصے سے اسے گھورتے ہوئے ہاتھ باہر کھینچے۔وہ زن سے گاڑی آگے لے گئی، پھر اس نے بیک ویو مرر سے دیکھا۔ وہ دونوں خواجہ سرا بار بار مڑ کر اسے دیکھتے ہوئے سڑک پار کر رہے تھے۔ ڈولی نے پنکی کا زخمی ہاتھ پکڑ رکھا تھا اور غصے سے حیا کی دور جاتی گاڑی کو دیکھتے ہوئے کچھ کہہ رہا تھا۔ اس نے سر جھٹک کر ایکسیلیٹڑ پر زور بڑھا دیا۔ کم ازکم اتنی امید اسے تھی کہ اب وہ ڈولی اس کا پیچھا کرنے کی ہمت نہیں کرے گا۔بہت جلد وہ غلط ثابت ہونے والی تھی۔جاری ہے
Subscribe to:
Posts (Atom)